مسلم کمرشل بنک کی نجکاری کے حوالے سے نیب کے پاس کوئی ریکارڈ موجود نہیں ، وزارت خزانہ اور اسٹیٹ بنک نے ہمیں اس حوالے سے کوئی ریکارڈ فراہم نہیں ، سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کو ڈائریکٹر جنرل نیب کی ایم سی بی کی نجکاری کے حوالے سے بریفنگ

تمام ریکارڈ حاصل کرنے کیلئے اقدامات اٹھائے جارہے ہیں،کیس سے متعلقہ 13 افراد میں سے 10 افراد کا انتقال ہوچکاہے ، یہ ایشو 1991 کا ہے، قائمہ کمیٹی کو 5 دسمبر کو تمام ریکارڈ دکھانے کا فیصلہ ،نیب حکام کی کیس کے جلد حل کی یقین دہانی

منگل 24 نومبر 2015 21:43

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔24 نومبر۔2015ء ) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کو مسلم کمرشل بنک کی نجکاری کے حوالے سے ڈائریکٹر جنرل نیب نے بتایا کہ ہمارے پاس ا س کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے اور نہ ہی وزارت خزانہ اور اسٹیٹ بنک نے ہمیں فراہم کیا ہے جس پر محرک تحریک سینیٹر سعید غنی نے کہا کہ نیب حکام نے سینیٹ کی اس کمیٹی کو پہلے ریکارڈکی موجودگی کا بتایا تھا اب انکار کیا جارہا ہے ۔

اگر ریکارڈ نہیں تھا تو انکوائری کس بنیاد پر کی گئی تھی لگاتا ہے نیب جان بوجھ کر کیس کو لٹکانے کے چکر میں ہے تاکہ ان لوگوں کو تحفظ دیا جا سکے ۔جس پر نیب کے حکام نے بتایا کہ اسٹیٹ بنک کو جو ریکارڈ فراہم کیا تھا وہ ابھی بھی موجود ہے وہ فوٹو کاپیا ں تھیں اس پر ہمارا کیس کمزور ہو جائے گا اصل کاغذات کہا ں ہیں ہمیں علم نہیں ہے جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ نیب قائمہ کمیٹی کو حقیقت سے آگاہ کرے کہ مسئلے کو حل کرنا ہے یا نہیں کبھی ریکارڈ کا تسلیم کرتے ہیں تو کبھی انکار کیا جارہا ہے ۔

(جاری ہے)

جس پر قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ تمام ریکارڈ حاصل کرنے کیلئے اقدامات اٹھائے جارہے ہیں کیس سے متعلقہ 13 افراد میں سے 10 افراد فوت ہو چکے ہیں یہ ایشو 1991 کا ہے۔قائمہ کمیٹی کو 5 دسمبر کو تمام ریکارڈ دکھانے کا فیصلہ بھی کیا گیا اور جلد سے جلد کیس کو حل کرنے کی یقین دہانی بھی کرائی گئی ۔منگل کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر سلیم ایچ مانڈوی والا کی زیر صدارت پارلیمنٹ لاجز کے کانفرنس ہال میں منعقد ہوا ۔

قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سینٹ جیمز ہوٹل اور کلب کے حواے سے فیصلہ کیا گیا کہ ایف بی آر کی موجودگی میں معاملات پر بحث کی جائے گی اور آئندہ اجلاس میں ایف بی آر کو بھی طلب کر لیا اسی طرح یورو بانڈ اور یو ایس ڈی بانڈ کے معاملے کے حواے سے بھی چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ وزارت نے درخواست کی ہے کہ ان کیمرہ بریفنگ حاصل کی جائے گی ۔قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں پاکستان منٹ فیکٹری کے کردار ، ذمہ داریاں ، کام کے طریقے کے معاملات کا بھی تفصیل سے جائزہ لیا گیا ۔

قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ یہ ادارہ 1943 میں قائم ہوا تھا اس کی مشینری بہت پرانی ہے یہ ادار ہ ایک ، دو اور پانچ روپے کے سکے جاری کر رہا ہے اس کے علاوہ سول اور ملٹری ایورڈ کے میڈلز ، پوسٹل سٹمپس ، وغیرہ بھی تیار کیے جارہے ہیں حکومت کو اس سال ارب روپے کی آمدن فراہم کی ہے ۔ادارے کے 937 منظور شدہ سیٹیں ہیں مگر 663 لوگ کام کر رہے ہیں ۔ادارہ اسٹیٹ بنک وزارت خارجہ ، داخلہ ، تعلیمی اداروں ، ڈاکخانہ ، کسٹم وغیرہ کے اداروں کو سہولیات فراہم کر رہا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ سکے کی عمر زیادہ ہوتی ہے اس لئے ایک ، دو اور پانچ روپے کے جاری کیے جارہے ہیں پانچ روپے کے سکے پر اڑھائی روپے خرچہ آتاہے اور یہ 20 سال چلتا ہے جبکہ نوٹ کی عمر 6 ماہ سے 2 سال تک ہوتی اور اس کا خرچہ دو روپے آتا ہے انہوں نے کہا کہ امریکہ میں چار طرح کے سکے اور کینیڈا میں 8 طرح کے سکے جاری کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ ادارے میں کل 12 افسران ہیں باقی لوگ مشینوں پر کام کرتے ہیں ۔

کمیٹی نے ملازمین کی صوبہ وار تفصیلات طلب کر لیں ۔قائمہ کمیٹی کو تبایا گیا کہ پرانی مشینوں کی جگہ نئی مشینیں حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ہماری مشین ایک منٹ میں 90 سکے نکالتی ہے جبکہ نئی مشینیں ایک منٹ میں 800 سکے نکالتی ہیں ۔ہمارے 450 ریگولر ملازم ہیں ۔قائمہ کمیٹی نے مسٹر انعام الہٰی ناصر کی عوامی عرضداشت کے حوالے سے ایم ڈی سے رپورٹ بھی طلب کر لی ۔

قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں ایس ایم ای بنک کے کردار فنکشنز اور ذمہ داریوں کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا ۔صدر ایس ایم ای بنک احسان اﷲ خان نے کمیٹی کوتفصیلی بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ اس بنک کو ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے اس بنک کی بدولت جی ڈی پی کا ایک تہائی اور ایکسپورٹ کا ایک چوتھائی حصہ شامل ہے ۔مگر ادارے کو وراثت میں جو قرضے ملے تھے ان کی ادائیگوں کی وجہ سے ا س کی کارکردگی متاثر بھی ہوئی ہے پچھلے سات سالوں میں بنکوں کی کل مالیت میں ایس ایم ای کا حصہ 16.2 سے6.3 پر آچکا ہے ۔

حکومت پاکستان اس بنک کی سب سے بڑی شیئر ہولڈ ر 94 فیصد ہے اس بنک کی کل13 شاخیں ہیں جن میں 8 وصولی ، 2 آڈٹ ، ایک خزانچی اور ایک مرکزی دفتر پر مشتمل ہے اس بنک کی 9 شہروں میں شاخیں ہیں ۔اور 386 ملازمین ذریعے کام چلایا جارہا ہے 2002 سے2007 تک بنک نے 1558 ملین ٹیکس منافع کمایا ۔2010 میں 8.9 ارب کا پرانا قرض پورٹ فولیو کے لئے نیشنل بنک کو منتقل کر دیا گیا مگر اب تک کوئی وصولی نہیں ہو سکی ۔

قائمہ کمیٹی نے ادارے کے واجب الاادا قرضوں کی فہرست بھی طلب کر لی ۔چیئرمین پرسن بی آئی ایس پی ماروی میمن نے قائمہ کمیٹی کو ادارے کے کردار فنکشنز ، ذمہ داریاں ، اور کام کے طریقہ کار کے بارے بریفنگ دیتے ہوئے کہاکہ یہ 2008 میں شروع ہوا ماہانہ ہزار روپے مالی امداد بڑھا کر 15 سو کر دی گئی ہے ۔1.7 ملین گھروں سے تعداد بڑھا کر 50 لاکھ گھروں تک پہنچ چکی ہے اور اس کا بجٹ بھی 102 ارب روپے موجو د حکومت کی غریب عوام دوستی کا ثبوت ہے ۔

یہ مالی امداد صرف خواتین کو فراہم کی جاتی ہے ۔نظام کو شفاف بنانے کیلئے غربت اسکور کارڈ کا آغاز کیا جارہا ہے جو اپنی نوعیت کا جنوبی ایشیا میں یہ پہلا قدم ہے ۔فاٹا کی دو ایجنسیوں کے علاوہ پورے پاکستان میں یہ عمل مکمل ہو چکا ہے ۔بی آئی ایس پی نے ملک بھر کے 9 اضلاع میں ٹیسٹ کی بنیاد پر سمارٹ کارڈ ، موبائیل فون ، بنک کاری کی شکل میں جدید ادائیگی کا طریقہ کار استعمال کیا اور اس وقت تقریباً4.8 ملین مستحقین فعال ٹیکنالوجی کے ذریعے ادائیگی حاصل کر رہے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ پہلے مالی امداد سہ ماہی بنیاد پر ہوتی تھی اس کو ماہموار کرنے کے اقدامات اٹھائے جارہے ہیں اور تمام معاملات میں شفافیت لانے کیلئے بائیومیٹرک سسٹم متعارف کرایا جائے گا ۔ اور اب تک 5.5 ملین خواتین کو مالی امداد فراہم کر چکے ہیں اور ہمارا ٹارگٹ 7.7 ملین خواتین کو امداد دینے کا ہے ۔انہوں نے کہا کہ مستحقین میں پانچ سے 12 سال کے بچوں کی والدہ کو اڑھائی سو روپے فی بچہ کے حساب سے سکول کی 70 فیصد حاضری کی شرط پر فراہم کیے جارہے ہیں ۔

ایک ملین مستحقین کو32 اضلاع میں یہ امداد فراہم کی جارہی ہے ۔قائمہ کمیٹی کو تبایا گیا کہ ادارے کو 92 فیصد حکومت فراہم کرتی ہے اور8 فیصد ڈونرز سے امداد ملتی ہے قائمہ کمیٹی نے ڈونرز کی تفصیلات طلب کر لیں۔ قا ئمہ کمیٹی نے ادارے کے کارکردگی کو اطمینان بخش قرار دیا ۔ماروی میمن نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ ادارے کا ایک بورڈ ہے جو پہلے اتنا فنکشنل نہیں تھا اب اس کو فنکشنل کر دیا گیا ہے وزارت اور اس بورڈ کی مدد سے تمام فیصلے کیے جاتے ہیں ۔

قائمہ کمیٹی نے بی آئی ایس پی میں ڈیپوٹیشن پر آنے والے افسران و سٹاف کی تفصیلات ادارے کے متعلق کرپشن کے بارے میں جاری ہونے والی اخباری رپورٹس کے حوالے سے طلب کر لیں ۔قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں وزار ت شماریات کی طرف سے سابقہ اجلاسوں میں دی گئی سفارشات پر بریفنگ نہ دینے پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے سفارشات پر عمل درآمد کے حوالے سے رپورٹ طلب کر لی ۔

چیف شماریات نے قائمہ کمیٹی کو تبایا کہ مارچ2016 میں مردم شماری کرنے کی تیاریاں تقریباً مکمل ہو چکی ہیں اس سے پہلے پانچ دفعہ ملک میں مردم شماری ہو چکی ہے ۔مردم شماری کے لئے 42 ملین فام تیار ہیں جو 2008 کی مردم شماری کیلئے تیار کیے گئے تھے اس مردم شماری میں پناہ گزینوں اور ڈپلومیٹ کو شامل نہیں کیا جائے گا مردم شماری کیلئے بلاکس بنائے جا چکے ہیں ایک بلاک میں 200 سے 250 گھر ہوں گے۔

اس حوالے سے صوبائی حکومتوں سے مدد حاصل کی جائے گی مقامی اساتذہ ، پٹواریوں و دیگر ملازمین کی خدمات حاصل کی جائیں گئیں۔یہ مردم شماری فوج کی نگرانی میں ہوگی ملک میں کل 151 اضلاع ہیں اورا ن کو 162921بلاکس میں تقسیم کیا گیا ہے ۔اس کام کیلئے 205397 افراد کی ضرورت ہو گی۔صوبائی حکومتوں کو یکم دسمبر سے انتظامی حدیں بڑھانے کی اجازت نہیں دی جائے گی انہوں نے کہا کہ ہماری ڈیٹا صرف الیکشن کمیشن استعمال کر سکتا ہے کسی بھی ایجنسی کو کسی بھی شخص بارے معلومات فراہم نہیں کرتے ۔

جنوری میں ہمارے اشتہارات چلیں گے ۔انہوں نے کہ اس وقت ملک میں شرح پیدائش 1.94 چل رہی ہے یہ ادارہ ہر سال اس حوالے سے سروے کرواتا ہے اور نپس بھی اس حوالے سے سروے کرتا ہے ۔ قائمہ کمیٹی نے مردم شماری کے حوالے سے ادارے کی طرف سے کی گئی تیاری اور اقدامات کو سراہا

متعلقہ عنوان :