قومی اسمبلی ،بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے رہنماؤں کی پھانسیوں پر شدید غم و غصے کا اظہار

منگل 24 نومبر 2015 15:42

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔24 نومبر۔2015ء) قومی اسمبلی میں نکتہ اعتراض پر ارکان نے بنگلہ دیش میں حسینہ واجد حکومت کی طرف سے جماعت اسلامی کے رہنماؤں کو نام نہاد جنگی جرائم کے الزامات میں دی جانے والی پھانسیوں پر شدید غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے 1971ء کی پاک بھارت جنگ میں پاکستان کا ساتھ دینے والوں کو پھانسیوں کی شدید مذمت کی ہے اور حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان پھانسیوں کے خلاف جنگی جرائم کی عالمی عدالت سے رجوع کرے، پاکستان بنگلہ دیش سے احتجاجاً اپنا سفیر واپس بلا لے، بنگلہ دیش میں جنگی جرائم کے تحت سزائیں جنگ کے بعدپاک بھارت معاہدے کی خلاف ورزی ہے، پاکستان کی جنگ بھارت کے ساتھ تھی تب بنگلہ دیش کا وجود ہی نہ تھا، پھر بنگلہ دیش کس طرح جنگی جرائم کی سماعت کے لئے عدالتیں بنا سکتا ہے۔

(جاری ہے)

منگل کو ایوان میں نکتہ اعتراض پر ارکان اسمبلی اظہر خان جدون، انجینئر محمد علی، مولانا قمر الدین، آسیہ ناصر، عبدالقہار، شفقت محمود، معین وٹو، میاں عبدالمنان، شیریں مزاری، چوہدری اشرف، غلام احمد بلور، صاحبزادہ طارق اللہ،شیر اکبر خان، شیخ آفتاب، عابدشیر علی اور ڈاکٹر عذرا فضل نے خطاب کیا اور مخدوم امین فہمی کی وفات پر انہیں خراج عقیدت سمیت مختلف ملکی ایشوز پر ایوان کی توجہ مبذول کرائی جبکہ ارکان کی اکثریت نے بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے رہنماؤں کو پھانسی دیئے جانے کے واقعہ پر بحث کی گئی۔

پی ٹی آئی کے اظہر خان جدون نے کہا کہ ایک میڈیا نے ہمیں اشتہاری قرار دیا ہے، معاملہ قائمہ کمیٹی کو بھجوایا جائے۔ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ بنگلہ دیش میں پھانسیوں کا معاملہ خارجہ امور کا نازک ایشوز ہے، اس ایشو پر احتیاط سے بات ہونی چاہیے، شہزادی عمر زادی ٹوانہ نے کہا کہ خواتین کے تحفظ کے ترمیمی بل کی جدل منظوری کیلئے اقدامات کئے جائیں۔

محمد علی نے کہا کہ بنگلہ دیش میں پاکستان کے ساتھ محبت کرنے والوں کو پھانسیوں کے ایشو کا نوٹس لیا جانا چاہیے اگر ہم نے آواز نہ اٹھائی تو پھر پاکستان سے محبت کرنے والوں کی بجائے اس ملک میں میر جعفر اور میر صادق پیدا ہوتے رہیں گے،

ایک قانون دان قانون کا اس حوالے سے بیانقابل مذمت ہے، انہیں پاکستان میں رہتے ہوئے اور پاکستان کا کھاتے ہوئے پاکستان سے محبت کرنے والوں کے خلاف باتیں نہیں کرنی چاہئیں۔

مولانا قمر الدین نے کہا کہ امین فہیم کی زندگی نوجوان سیاستدانوں کیلئے مشعل راہ ہے، اذان کے ساتھ نماز کیلئے ایوانمیں وقفہ ہونا چاہیے۔ فاٹا رکن محمد عظیم نے کہا کہ قبائلی عوام کی گھروں کو واپسی کا عمل جلد مکمل کیا جائے، ایسا نہ ہو کہ لوگ احتجاج کیلئے اسلام آباد پہنچ جائیں،(ن)لیگ کی قیادت نے نارتھ وزیرستان میں کوئی تعمیر و ترقی کا کام نہیں کرایا۔

آیہ ناصر نے کہا کہ انسانی حقوق کونسل میں کشمیر کاز اٹھانے کیلئے بہت ضروری ہے، حکومت کی عدم توجہ کی وجہ سے پاکستان میں اقلیتیں غیر محفوظ ہیں،بچوں کو زبردستی مذہب تبدیل کرایاجا سکتا ہے، سیالکوٹ میں 13 سالہ غیر مسلم لڑکی کو اغواء کر کے مذہب تبدیل کیا گیا، اقلیتوں کا استحصال کرایا جا رہا ہے۔ عثمان ڈار نے کہا کہ موجودہ حکومت نے مسئلہ کشمیر ہر فورم پر اٹھایا ہے۔

عبدالقہار نے کہا کہ بلوچستانکے اکثر علاقوں میں موبائل سروس نہیں ہے۔ شفقت محمود نے کہا کہ اگر حکومت پارلیمنٹ کو سنجیدگی سے نہیں لے گی تو پارلیمنٹکا وقار بلند نہیں ہو گا، قومی ایشوزپارلیمنٹ میں زیر بحث لایا جانا چاہیے، جنرل عاصم باجوہ کے بیان سے پتہ چلا کہ پاکستان کی پالیسی ملک سے باہر فوج نے بھیجنے کی ہے، اچھا ہوتا کہ یہ بات وزیر دفاع بیان کرتے اور اس ایوان میں بیان دیتے۔

معین وٹو نے کہا کہ امین فہیم کی اقتدار ٹھکرانے کے حوالے سے روایات ارکان کیلئے مشعل راہ ہیں، بنگلہ دیش میں سیاسی بنیادوں پر پھانسیاں قابل مذمت ہیں، ہم ماضی کی تلخیاں بھول چکے مگر وہاں کی حکومت گڑھے مردے اکھاڑ رہی ہے، 45سال بعد یہ سزائیں بلا جواز ہیں، فارن آفس اس معاملے پر بھرپور آواز بلند کرے۔ شیر اکبر خان نے کہا کہ سٹیل مل کے ملازمین کو چار ماہ کی تنخواہیں ادا کروائی جائیں۔

میاں عبدالمنان نے کہا کہ بنگلہ دیش میں پاکستان سے محبت کرنے والوں کو پھانسیاں قابل مذمت ہیں،یہ صرف جماعت اسلامی کا معاملہ نہیں حکومت بین الاقوامی جنگی ٹربیونل میں یہ معاملہ اٹھایا جانا چاہیے۔ شیخ رشید نے کہا کہ کرکٹ بورڈ والے پہلے ہی منہ کالا کروا کر بھارت سے واپس آئے ہیں، اب کس منہ سے بھارت جانا چاہتے ہیں،