سینیٹ اجلاس میں قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ (این ایف سی) جولائی دسمبر 2014ء پر بحث کو سمیٹ دیا گیا

ساتویں این ایف سی کی توسیع غیر آئینی نہیں‘ جب تک نئے این ایف سی پر اتفاق نہیں ہوتا موجودہ این ایف سی لاگو رہے گا‘ ضلع ٹیکس کے نام پر غنڈہ ٹیکس ہوتا تھا جسے ہم نے ختم کیا ،خیبر پختونخوا کو پنجاب کی تجویز پر دہشت گردی سے متاثرہ ہونے کی وجہ سے اس کے حصے سے زیادہ دیا گیا، صوبوں کو ممبر نامزد کرنے کے لئے خط لکھے جواب نہ آئے تو ہم کیا کر سکتے ہیں وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار

جمعہ 13 نومبر 2015 18:20

اسلام آباد ۔13نومبر(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔13 نومبر۔2015ء) وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ نئے این ایف سی کو جلد حتمی شکل دینے کی کوشش کر رہے ہیں‘ ساتویں این ایف سی کی توسیع غیر آئینی نہیں‘ جب تک نئے این ایف سی پر اتفاق نہیں ہوتا موجودہ این ایف سی لاگو رہے گا‘ صوبوں کو زیادہ سے زیادہ وسائل دیئے گئے ہیں۔

جمعہ کو ایوان بالا میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ (این ایف سی) جولائی دسمبر 2014ء پر بحث کو سمیٹتے ہوئے کہا کہ تاجک صدر کے ساتھ مصرفیات کی وجہ سے وہ گزشتہ روز ایوان میں نہیں آسکے۔ سیکرٹری خزانہ سمیت ان کی پوری ٹیم ایوان میں موجود تھی اس پر وہ معذرت چاہتے ہیں۔ این ایف سی ایوارڈ کے حوالے سے بحث کا تعلق اس رپورٹ سے تھا کہ جس میں ہم نے شق (ب) شامل کی۔

(جاری ہے)

اس شق کا مقصدیہ تھا کہ این ایف سی ایوارڈ پر عملدرآمد کے حوالے سے وزراء اعلیٰ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے سامنے رپورٹ پیش کرنے کے پابند ہیں۔ ملک میں 4 این ایف سی ایوارڈ پیش ہوئے۔ پہلا ایوارڈ 30 جون 1991ء تک چلا۔ جولائی 1991ء سے 30 جون 1997ء تک ہمارے دور میں چلایا۔ اس کے بعد حکومت نے نیا این ایف سی ایوارڈ دیا۔ پہلی دفعہ یہ آبادی کی بنیاد پر نہیں دیا گیا۔

اس میں پنجاب نے قربانی دی۔ آبادی کو 28 فیصد‘ غربت کو 10 فیصد‘ ریونیو جنریشن کو 5.5 فیصد اور کل آبادی کو 82 فیصد۔ اس میں پسماندہ صوبوں کا خیال ر کھا گیا اور اس کے لئے 10.30 فیصد رکھا گیا۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب کا حصہ 51.74 فیصد‘ سندھ کا 26 فیصد‘ خیبر پختونخوا کے لئے 14.62 فیصد اور بلوچستان کے لئے 15.69 فیصد رکھا گیا۔ میں بلوچستان کی ہمیشہ وکالت کرتا ہوں۔

اس لئے ہم نے بلوچستان کا حصہ 9.09 فیصد بڑھایا۔ انہوں نے کہا کہ اتفاق رائے سے ہم نے کنکرنٹ لسٹ کا خاتمہ کرنے کا ارادہ کیا۔ وفاق کا شیئر کم کرکے وسائل کا رخ صوبوں کی طرف موڑا گیا۔ صوبوں کے پاس وسائل کا 57.50 اور وفاق کے پاس 42.50 فیصد حصہ رکھا گیا۔ انہوں نے کہا کہ فروری میں ہمیں سارے صوبوں سے بڑی مشکل سے صوبوں سے فنانس کمیشن کے ناموں کی تفصیلات موصول ہوئیں۔

انہوں نے کہا کہ ملک میں ضلع ٹیکس کے نام پر غنڈہ ٹیکس ہوتا تھا جسے ہم نے ختم کیا جس کی تاجر برادری آج بھی تعریف کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا کو پنجاب کی تجویز پر دہشت گردی سے متاثرہ ہونے کی وجہ سے اس کے حصے سے زیادہ دیا گیا۔ آئین بہت واضح ہے‘ ہم نے آئین کے خلاف کچھ نہیں کیا۔ صوبوں کو ممبر نامزد کرنے کے لئے خط لکھے جواب نہ آئے تو ہم کیا کر سکتے ہیں۔

یہ تاثر کہ ہم کوئی غیر آئینی کام کر رہے ہیں بالکل غلط ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے کچھ چھپایا نہیں ہے۔ ماضی میں اہداف حاصل نہیں کئے جاسکے۔ ہم قوم‘ عوام اور پارلیمان کو جوابدہ ہیں۔ وقت پر صوبوں کو رقم فراہم کی جاتی ہے۔ مختلف مدوں میں صوبوں کو رائلٹی کی رقم بھی فراہم کی گئی ہے۔ گیس کی رائلٹی کی مد میں بھی پنجاب کے سوا دیگر صوبوں کو ادائیگیاں کی گئی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ این ایف سی ایوارڈ کا اعلان نہ ہونا آئین کی خلاف ورزی نہیں۔ ماضی میں 16 سال اور 13 سال بعد بھی ا یوارڈ آئے‘ کمیشن نامکمل ہے، کوشش ہے جلد کمیشن مکمل ہو۔ ملکی تاریخ میں پہلی بار آبادی کے علاوہ دیگر بنیادوں پر این ایف سی ایوارڈ لایا گیا۔ ملک کی آدھی آبادی اگر غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے تو ان کے لئے زیادہ رقم مختص کر رہے ہیں۔ انفراسٹرکچر اور توانائی کے منصوبوں پر توجہ دے رہے ہیں۔ ہم مشاورت سے فیصلے کرتے ہیں، خود سلیم مانڈوی والا اور اسد عمر سے فون کرکے بات کرتا ہوں۔ ایوان میں ہر سوال کا جواب فراہم کرنے کے لئے تیار ہیں۔