پاکستان کی تمام اکائیوں کے امپورٹرز اور ایکسپورٹرز کے تجارتی تنازعات کے حل کیلئے قانون سازی بارے کام جاری ہے، مس روبیہ توفیق شاہ

جمعرات 12 نومبر 2015 20:58

کوئٹہ ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔12 نومبر۔2015ء ) وزارت صنعت و تجارت پا کستان کی ڈائریکٹر جنرل مس روبیہ توفیق شاہ نے کہا ہے کہ پاکستان کی تمام اکائیوں کے امپورٹرز اور ایکسپورٹرز کے اندرون و بیرون ملک تجارتی تنازعات کے حل کیلئے قانون سازی بارے ترجیحی بنیادوں پر کام جاری ہے قانون بنانے کیلئے میکنزم پر کام تیزی کیساتھ ہورہا ہے امپورٹرز اور ایکسپورٹرز کو درپیش تمام تر مشکلات کے حل کیلئے ہر ممکن تعاون فراہم کیا جائیگا ہماری کوشش ہے کہ پاکستان سے تعلق رکھنے والے تاجر کمیونٹی کے بیرون ملک تجارتی تنازعات کو جلد حل کیا جائے تاکہ ان کے اربوں روپے وصول کئے جاسکیں ۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے ایوان صنعت و تجارت کوئٹہ بلوچستان اور ٹریڈ ڈسپیوٹ آرگنائزیشن وزارت صنعت و تجارت پاکستان کے اشتراک سے کوئٹہ چیمبر آف کامرس میں منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

(جاری ہے)

اس سے قبل ایوان صنعت و تجارت کوئٹہ بلوچستان کے صدر جمال ترہ کئی نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ آج کے سیمینار کا مقصد بزنس کمیونٹی کے کاروباری مسائل کو حل کرنے بارے مستقل لائحہ عمل کی تیاری کیلئے بلوچستان کے تجارت سے وابستہ افراد کی تجاویز اور رائے لینا ہے چیمبر اپنے طور پر تو تجارت سے وابستہ افراد کے مسائل کے حل کیلئے بھرپور کوششوں میں مصروف ہے سمگلنگ کی روک تھام اور قانونی تجارت کا فروغ اس وقت تک ممکن نہیں ہوگا جب تک چیمبر آف کامرس اور حکومت ایک پیج پر نہ ہوں بلوچستان کے بزنس کمیونٹی نے 10 ماہ کے دوران 7 ارب روپے کی خطیر رقم کا ٹیکس حکومتی خزانے میں جمع کیا ہے مگر یہاں انہیں کسی قسم کی سہولیات میسر نہیں صوبے کے بزنس کمیونٹی کا دیرینہ مطالبہ ہے کہ انہیں ٹیکس ویلیو ایشن میں 30 فیصد رعایت دی جائے تاکہ وہ ٹیکس نیٹ میں شامل ہوں اور حکومتی ریونیو میں اضافہ ہو، انہوں نے کہاکہ بلوچستان کی جغرافیائی اہمیت سے کوئی انکارنہیں کرسکتا یہاں کے امپورٹرز اور ایکسپورٹرز ہمسایہ ممالک سمیت دنیا کے دیگر ممالک کیساتھ تجارتی روابط رکھے ہوئے ہیں مگر مختلف ممالک میں ان کو مشکلات اور مسائل کا سامنا ہے ایران سے رقوم کی لین دین میں مشکلات کے باعث بلوچستان کے تاجروں کے اربوں روپے پھنسے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے وہ مالی بدحالی کا شکار ہیں جمال ترہ کئی نے تجویز پیش کی کہ منسٹری آف کامرس چیمبر کے منتخب افراد پر مشتمل کمیٹی بنائے جو دوسرے ممالک کے سفارت خانوں اور قونصل جنرل سے یہاں کی تجارت سے وابستہ افراد کے مسائل بارے گفت و شنید کرسکیں اس سے بزنس کمیونٹی کا وقت اور پیسہ دونوں بچیں گے، انہوں نے کہاکہ بلوچستان کی بزنس کمیونٹی نے ٹوٹل پارکو پاکستان لمیٹڈ کیساتھ پٹرولیم سیکٹر میں ایک ارب روپے کی سرمایہ کاری کی ہے لیکن مگر اب مذکورہ کمپنی بلوچستان میں امن و امان کے مسئلے کا بہانہ کرکے یہاں کاروبار سے اجتناب کررہی ہے جس کی وجہ سے سرمایہ کاروں کی رقم ڈوبنے کا خطرہ ہے منسٹری آف کامرس منسٹری آف پٹرولیم اینڈ نیچرل ریسورسز کیساتھ ملکر مسئلے کے حل بارے کردار ادا کریں، انہوں نے کہاکہ بلوچستان سے ایران چاول بھجوایا جارہا ہے مگر چاول کو لیبارٹری ٹیسٹ کے نام پر 6 ماہ تک رکھا جاتا ہے جس کی وجہ سے اس تجارت سے وابستہ افراد کو مشکلات اور پریشانی کا سامنا ہے ،انہوں نے ٹرانسپورٹ مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ ایران سے آنیوالی مال بردار گاڑیاں پاکستان میں کہیں بھی جاسکتی ہیں مگر پاکستانی گاڑیوں پر وہاں پر پابندی ہے اس سلسلے میں منسٹری آف کامرس کو ایرانی حکام سے بات کرلینی چاہیے ،انہوں نے کہاکہ پاک ایران جوائنٹ کمیٹی ایگریمنٹ کے تحت معاملات کو برابری کی بنیاد پر حل کیا جانا چاہیے جمال ترہ کئی نے کہاکہ بلوچستان کا کوئی ایک بھی امپورٹر یا ایکسپورٹر ایسا نہیں کہ جس نے کسی دوسرے ملک میں قانون کی خلاف ورزی کی ہو بلکہ یہاں کے امپورٹرز اور ایکسپورٹرز کیساتھ دوسرے ممالک کے لوگ مختلف حیلے بہانوں سے تنازعے کھڑے کرتے ہیں اور ان کی رقوم کو اپنے پاس رکھ لیتے ہیں اس سلسلے میں منسٹری آف کامرس کو کردار ادا کرنا چاہیے ۔

سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے منسٹری آف کامرس کی ڈائریکٹر جنرل مس روبینہ توفیق نے کہاکہ ان کا ادارہ ٹریڈ ڈسپیوٹ آرگنائزیشن منسٹری آف کامرس تجارتی تنازعات کے حل کیلئے تشکیل دیا جاچکا ہے یہ ان تنازعات کے حل کیلئے کام کررہی ہے جو مال بارڈر کراس کرتا ہے اس سلسلے میں پہلے دوسری تنظیموں کی ذمہ داری تھی مگر اب تجارتی تنازعات کا حل ٹریڈ ڈسیپوٹ آرگنائزیشن نکالے گی ،انہوں نے کہاکہ آرگنائزیشن کے اسلام آباد لاہور اور کراچی میں دفاتر کھولنے کا حکم دیا گیا تھا اب تک صرف اسلام آباد میں ادارے کا دفتر فعال بنایا جاسکا ہے جہاں ان کے پاس 160 تنازعات لائے گئے ہیں، انہوں نے کہاکہ ٹریڈ ڈسیپوٹ بارے قانون سازی وقت کی ضرورت ٹریڈ ڈسیپوٹ ایکٹ پر کام جاری ہے مگر اس سلسلے میں ملک کے مختلف اداروں کو آگاہی بھی ضرورت ہے ہم ایکٹ بنانے پہلے ایک میکنزم بنانا چاہتے ہیں بد قسمتی یہ ہے کہ امپورٹرز اور ایکسپورٹرز کا ابھی تک واضح تعریف بھی نہیں یہاں جو قانون موجود ہے اس کے تحت صرف ایکسپورٹرز ہی جوابدہ ہیں امپورٹرز نہیں روبینہ توفیق شاہ نے کہاکہ بزنس کمیونٹی معاہدے نہیں کرپاتی کیونکہ اس سلسلے میں وہ شک ہی نہیں کہ جس میں تنازعہ کی صورت میں کوئی حل بتایا گیا ہو ،انہوں نے کہاکہ کمرشل تنازعات کے حل میں مشکل اس لئے پیش آرہی تھی کہ اس سلسلے میں ججز کی کمی تھی مگر اب ادارے کی جانب سے چیخ و پکار پر ججز کی تعیناتی کا عمل شروع کردیا گیا ہے، انہوں نے کہاکہ ملک سے باہر کے لوگ یہاں کی تجارت سے وابستہ افراد پر کیس کردیتے ہیں تو ان کو خطیر رقوم کا نقصان ہوتا ہے دنیا اسی لئے ہم سے بہت آگے تجارتی لحاظ سے آگے نکل چکی ہے کہ ان کے پاس ہر مسئلے کے حل کیلئے قانون سازی کی جاچکی ہے، انہوں نے کہاکہ 2 دسمبر کو اسلام آباد میں پبلک پرائیویٹ سیکٹرز کے سامنے ایکٹ کی تشکیل اور دیگر بارے اکٹھی کی گئیں تجاویز رکھی جائیں گی امید ہے کہ چیمبر آف کامرس کوئٹہ کی تھنک ٹینک بھی اس میں شریک ہوگی ویب سائٹس کے ذریعے سے بھی تجارت سے وابستہ افراد کو معلومات دینے کی کوشش کی جارہی ہے کوالٹی کنٹرول بارے معلومات نہ ہونے کے باعث یہاں کے تاجروں کو نقصان کا سامنا ہے اس مسئلے کا مستقبل حل چاہتے ہیں ،انہوں نے کہاکہ موجودہ صورتحال سے 72 فیصد بزنس کمیونٹی کے لوگ متفق نہیں انہوں نے کہاکہ ٹریڈ ڈسیپوٹ کی اصل وجہ پیمنٹ کوالٹی کے مسائل اور دستاویزات پوری نہ اور دیگر ہیں انہوں نے کہاکہ تنازعات کے حل کیلئے ریجنل سطح پر بھی کمیٹیاں تشکیل دی جاچکی ہیں سیمینار میں بلوچستان کے تجارت سے وابستہ افراد نے ڈائریکٹر جنرل مس روبیہ توفیق سے مختلف سوالات کئے جبکہ آخر میں انہیں چیمبر آف کامرس کی جانب سے گلدستہ اور خصوصی شیلڈ بھی پیش کی گئی۔

متعلقہ عنوان :