رواں برس کے دوران کپاس کی پیداوار مقررہ ہدف سے 40لاکھ گانٹھیں کم رہنے کی پیشگوئی ،درآمد پر چار سے پانچ ارب ڈالر خرچ کرنا ہونگے،مقررہ ہدف میں دوسری مرتبہ نظر ثانی کر کے اسے ایک کروڑ 14 لاکھ کر دیا گیا ،ہدف میں اب مزید کمی کی ضرورت نہیں پڑیگی‘پیداوار میں کمی کی ضرورت سے زیادہ باشیں ،کپاس کیلئے 40ہزار من بیج کی ضرورت ہوتی ہے صرف 22فیصد مہیا کر سکے ،کاٹن کمشنر ڈاکٹر خالد عبد اﷲ

جمعرات 12 نومبر 2015 20:25

لاہور/لندن (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔12 نومبر۔2015ء) رواں برس کے دوران کپاس کی پیداوار مقررہ ہدف سے 40لاکھ گانٹھیں کم رہنے کی پیشگوئی کی گئی ہے ،مقررہ ہدف میں دوسری مرتبہ نظر ثانی کر کے اسے ایک کروڑ 14 لاکھ کر دیا گیا ہے،حکومت کو ضروریات پوری کرنے کیلئے درآمد پر چار سے پانچ ارب ڈالر خرچ کرنا ہوں گے۔برطانوی نشریاتی ادارے نے کپاس کی فصل کا تخمینہ لگانے والے سرکاری ادارے کے حوالے سے بتایاہے کہ پاکستان میں کپاس کی سالانہ کھپت ایک کروڑ 50 لاکھ گانٹھوں سے زیادہ ہے۔

ملک میں اس سال 40 سے 50 لاکھ گانٹھیں درآمد کرنا پڑیں گی جس کے لیے حکومت کو چار سے پانچ ارب ڈالر خرچ کرنا ہوں گے۔یہ اعدادوشمار کپاس کے تخمینے کے لیے قائم کردہ کمیٹی کے تیسرے اجلاس میں پیش کئے گئے ۔

(جاری ہے)

کپاس کے تخمینے کے اس سرکاری ادارے نے ابتدائی ہدف پر چند ہفتے پہلے ہی نظر ثانی کر کے اسے ڈیڑھ کروڑ سے کم کر کے ایک کروڑ 30 لاکھ گانٹھیں کر دیا تھا تاہم وزارت ٹیکسٹائل انڈسٹری میں ہونے والے اس اجلاس میں پیش کیے گئے اعدادوشمار کی روشنی میں اس ہدف پر ایک بار پھر نظر ثانی کر کے اسے ایک کروڑ 14 لاکھ کر دیا گیا ہے۔

حکومت پاکستان کے کاٹن کمشنر ڈاکٹر خالد عبداﷲ نے بتایا کہ اس دوسری مرتبہ نظر ثانی کردہ ہدف میں اب مزید کمی کی ضرورت نہیں پڑے گی۔کپاس کی فصل کا حجم اس سے مزید کم نہیں ہو گا اور ایک کروڑ 14 لاکھ کے قریب گانٹھیں روئی بنانے والی ملز میں پہنچ جائیں گی۔انہوں نے کہا کہ کپاس کی فصل کی اس بری کارکردگی کی دو بنیادی وجہ ہیں جس میں ایک صوبہ پنجاب کے کپاس پیدا کرنے والے اضلاع میں ضرورت سے زیادہ بارشوں کا ہونا اور دوسری اور زیادہ اہم وجہ کسانوں تک معیاری اور تصدیق شدہ بیج کا نہ پہنچ پانا ہے۔

کپاس کے لیے 40 ہزار من بیج کی ضرورت ہوتی ہے لیکن اس سال ہم اس کا صرف 22 فیصد ہی کسانوں تک پہنچا پائے، یہ مقدار پچھلے سالوں کی نسبت تو بہت زیادہ ہے لیکن کسان کی ضرورت سے پھر بھی بہت کم ہے۔ڈاکٹر خالد عبداﷲ نے معیاری اور تصدیق شدہ بیج کی عدم فراہمی کی ذمہ داری بیج کی کمرشل پیداوار کی ذمہ دار نجی بیج کمپنیوں پر عائد کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں 700 سے زائد بیج کمپنیاں کام کر رہی ہیں اس کے باوجود کسانوں کو بیج نہ ملنا بدقسمتی کی بات ہے۔ اس مسئلے کے حل کے لیے حکومت نے بیج کی تیاری اور تقسیم کا نیا قانون حال ہی میں منظور کیا ہے جس کے بعد امید ہے کہ یہ مسئلہ دوبارہ پیدا نہیں ہوگا۔

متعلقہ عنوان :