قائمہ کمیٹی برائے کابینہ سیکرٹریٹ کی کارکردگی لائق تحسین ہے ‘تمام قائمہ کمیٹیوں کو ان کے نقش قدم پر چلنا چاہئے ‘زلزلہ سے پورا ملک متاثر ہوا ‘وزیراعظم نے خود متاثرہ علاقوں کے کئی دورے کئے ‘ تباہ مکانات اور جاں بحق افراد کے معاوضوں میں اضافہ کیا ‘ زلزلہ متاثرین کا اشعار سے پیٹ نہیں بھرے گا ‘حکومت کو اس سنگین معاملے پر ایوان کی تجاویز کو سنجیدہ انداز سے سوچنا ہوگا ‘بہت کم عرصے میں زلزلہ کیلئے سفارشات مرتب کی گئیں ‘سولہ سفارشات میں سے ہر سفارش زلزلہ متاثرین کی فلاح کیلئے ہے

چیئرمین سینٹ رضا ربانی ‘ سینیٹ میں قائد ایوان راجہ ظفر الحق ‘اپوزیشن لیڈر سینیٹر اعتزاز احسن کاسینٹ میں قائمہ کمیٹی برائے کابینہ سیکرٹریٹ کی زلزلہ متاثرین کی بحالی کیلئے مرتب کردہ سفارشات پر اظہار خیال

منگل 10 نومبر 2015 16:37

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔10 نومبر۔2015ء) سینیٹ میں قائد ایوان راجہ ظفر الحق نے کہا کہ قائمہ کمیٹی برائے کابینہ سیکرٹریٹ کی کارکردگی کو سراہتا ہوں اور تمام قائمہ کمیٹیوں کو ان کے نقش قدم پر چلنا چاہئے پورا ملک زلزلے کی زد میں ہے اور اس زلزلے سے پور اپاکستان متاثر ہوا ہے ‘ وزیراعظم نواز شریف نے خود کئی دورے کئے ہیں‘ تباہ شدہ مکانات اور جاں بحق افراد کے معاوضوں میں اضافہ کیا ہے‘ زلزلہ متاثرین کا اشعار سے پیٹ نہیں بھرے گا اور پرانے اشعار سے کچھ نہیں ہوگا‘ سینٹ کی مثبت پالیسی اور مقام جو بنا ہے اس کو برقرار رکھا جائے۔

اپوزیشن لیڈر سینیٹر اعتزاز احسن نے کہا کہ حکومت کو اس سنگین معاملے پر ایوان کی تجاویز کو سنجیدہ انداز سے سوچنا ہوگا میں صدیق بلوچ کو ڈونڈھ رہا ہوں کیونکہ صرف لودھراں کیلئے اڑھائی ارب روپے دیئے گئے وزیراعظم نے کہا کہ دو ارب روپے مانگے میں اڑھائی ارب دیتا ہوں میں ان زلزلہ متاثرہ علاقوں میں کسی صدیق بلوچ کو ڈھونڈتا ہوں کہ حکومت وہاں بھی کسی صدیق بلوچ کیلئے کسی فنڈ کا اعلان کرے۔

(جاری ہے)

چیئرمین سینٹ رضا ربانی نے سینٹ کی کابینہ سیکرٹریٹ کی قائمہ کمیٹی کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے کہا کہ انہوں نے بہت کم عرصے میں زلزلہ کے حوالے سے سفارشات مرتب کی ہیں اور سولہ سفارشات میں سے ہر سفارش زلزلہ متاثرین کی فلاح کے لئے ہے۔ قائمہ کمیٹی کی اس کوشش پر ان کو داد دیتا ہوں۔ وہ منگل کو سینٹ میں قائمہ کمیٹی برائے کابینہ سیکرٹریٹ کی زلزلہ متاثرین کے حوالے سے مرتب کی گئی سفارشات پر اظہار خیال کر رہے تھے ۔

اس موقعہ پر سینیٹر طاہر حسین مشہدی،سینیٹر کریم احمد خواجہ ،سینیٹر نسرین جلیل ، سینیٹر الیاس بلور،سینیٹر سراج الحق،سینیٹر مشاہد حسین سید، بیرسٹر جاوید عباسی ، سینیٹر شیری رحمان، سینیٹر سعید الحسن مندوخیل،سینیٹر میر کبیر ،سینیٹر محسن عزیز ،سینیٹر نعمان وزیر خٹک،سینیٹر صلاح الدین ترمذی،سینیٹر شاہی سید،سینیٹر فرحت الله بابر ،سینیٹر کامل علی آغا ،گا سینیٹر تاج حیدر نے بھی اظہا ر خیا ل کیا ۔

بحث میں حصہ لیتے ہوئے سینیٹر طاہر حسین مشہدی نے پیش کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان انجینئرنگ کونسل کے عمارتی ضابطہ 2007 کو نافذ نہ کئے جانے سے قدرتی آفات کی وجہ سے نقصانات کا سامنا ہے۔ زلزلہ پروف عمارتوں کی تعمیر کی ذمہ داری حکومت کی ہے عمارتی ضابطہ کے مطابق ایسی عمارتیں بنائی جانی تھیں جو دس شدت کا زلزلہ برداشت کرے عمارتی ضابطہ کی خلاف ورزی کرنے والوں کیلئے بھی سزا کا تعین کیا جائے۔

اسی خلاف ورزی کی وجہ سے پچاس سے زائد لوگ لاہور میں جاں بحق ہوئے جبکہ قانون موجدو ہے تو اس پر عمل درآمد کروایا جائے اور سروے ہونا چاہئے اور عمارتوں کی جانچ پڑتال ہونی چاہئے۔ آج عمارتیں گرنے سے ہمیشہ غریب مرتے ہیں پر اظہار خیال کرتے ہوئے سینیٹر کریم احمد خواجہ نے کہا کہ عمارتیں بنتی ہیں اور پی ای سی میں سفارشی لوگوں کو تعینات نہ کیا جائے تو معاملات بہتر ہوسکتے ہیں۔

سینیٹر نسرین جلیل نے کہا کہ دنیا بھر میں ایسے ٹاورز بنائے جاتے ہیں جو بہتر ہوتے ہیں مگر پاکستان میں ایسا نہیں ہے سینیٹر الیاس بلور نے کہا کہ جو بھی عمارت بنتی ہے اس کو عمارتی ضابطہ کے مطابق بنایا جانا چاہئے سینیٹر سراج الحق نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ کوئی مکمل تباہ گھر دو لاکھ روپے میں نہیں بنتا اور زلزلہ سے تقریباً گھر مکمل تباہ ہوگئے ہیں مکمل تباہ گھروں کا معاوضہ پانچ لاکھ ہونا چاہئے سرکاری عمارات‘ سڑکیں اور پلوں کیلئے واضح پالیسی بنائی جانی چاہئے۔

والی سوات کے دور میں تعمیر ہونے والی عمارتیں سلامت اور حکومت کی جانب سے تعمیر شدہ عمارات تباہ ہوگئیں اگر کسی کو غلط تعمیرات پر سزا دی جائے تو دوبارہ کوئی غلطی نہیں کرے گا سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ ہر جگہ عماراتی ضابطہ موجود ہے اور ہم زلزلہ ایریا میں رہتے ہیں ہمیں تو زیادہ توجہ دینی چاہئے۔ زلزلے کے بعد غفلت تو انتظامیہ کی غلطی ہے ماضی کی غلطیاں اگر دہرائی جائیں گی تو معاملات خراب ہوں گے این ڈی ایم اے اور ایرا کا کوئی تعاون آپس میں نہیں ہے روس اور بنگلہ دیش میں ڈیزاسٹر مینجمنٹ کی الگ وزارت موجود ہے مگر ہمارے ہاں ایسا نہیں ہے این ڈی ایم اے اور ایرا کو ضم کرکے وزارت تشکیل دی جائے بیرسٹر جاوید عباسی نے کہا کہ 2005 کے زلزلے سے کم نقصان ہوا اس زلزلے میں ایرا نے 2005 کے زلزلے سے تباہ شدہ عمارات کو ابھی تک تعمیر نہیں کیا نیو بالاکوٹ سٹی منصوبے پر کوئی پیش رفت نہیں ایرا کی اسٹیبلشمنٹ پر اربوں روپے خرچ ہوئے مگر کام صفر ہے 200تباہ سکولں اور بی یو ایچ اب تک تعمیر نہیں ہوئے۔

سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ مالاکنڈ اور چترال میں تباہی ہوئی ہے مگر این ڈی ایم اے اور صوبائی حکومت کی جانب سے کوئی داد رسی نہیں کی جارہی ابھی تک ریلیف کا کام ہوا مگر ان لوگوں کی آبدا کاری پر ابھی تک کام نہیں ہوا۔ سینیٹر سعید الحسن مندوخیل نے کہا کہ عمارتوں کی تعمیر کیلئے سارا ملبہ ٹھیکیدار پر نہیں ڈالنا چاہئے عمارتوں کی تعمیر میں میڈیکل کا تعین کنسلٹنٹس کرتے ہیں

سینیٹر میر کبیر نے کہا کہ کوئٹہ فالٹ لائن پر واقع ہے مگر وہاں بھی عمارتی ضابطہ کا خیال نہیں رکھا جاتا جاپان میں زلزلے سے لوگ لطف اندوز ہوتے ہیں مگر پاکستان میں چھوٹے زلزلے سے بھی تباہی ہوتی ہے زیارت زلزلے میں سات ارب دیئے گئے تھے مگر وہ لوگوں کی جیبوں میں چلے گئے سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ ہم تو فوٹو شوٹ کیلئے سب سے پہلے پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں اور وی آئی پیز کی سککیورٹی اور رہنے کے لئے بڑے بڑے انتظامات کئے جاتے ہیں سب سے پہلے وی آئی پی کلچر کو ختم کرنا ہوگا جو ریلیف نہیں بلکہ وہاں اس سے مزید مسائل پیدا ہوتے ہیں سینیٹر بیرسٹر سیف نے کہا کہ ہمیشہ ہم صرف تقریر پر اکتفا کرتے ہیں اور تجربے سے سیکھتے نہیں ہیں ہم ہر سال سیلاب اور زلزلوں کو عذاب سمجھ کر چھوڑ دیتے ہیں حکومت کو سنجیدگی سے کام کرنا چاہئے اپنے ہی کسی جیالے اور متوالے کو نیشنل والنٹیئر موومنٹ کا سربراہ بنا کر اسے فعال کیا جائے۔

سینیٹر نعمان وزیر خٹک نے کہا کہ عمارتی ضابطہ کو پاکستان کے تمام علاقوں تک پھیلایا جائے پاکستان میں ایسا کوئی نظام ہی نہیں کہ عمارات کی جانچ پڑتال کی جائے ہم تمام اس کے ذمہ دار ہیں سینیٹر صلاح الدین ترمذی نے کہا کہ ابھی تک نقصان کا اندازہ نہیں لگایا گیا سروے ٹیمیں واپس کی جائیں بالاکوٹ کے حوالے سے لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں تو میں کہتا ہوں اپنی حسرتوں پر آنسو بہا کے رو ایرا کی تنخواہوں کا حساب تھا لگائیں تو فنڈز صرف انہی پر خرچ ہوتے ہیں ہمیں وقت ضائع نہیں کرنا چاہئے سینیٹر شاہی سید نے کہا کہ 2005 کے زلزلے سے نقصانات اٹھائے ہیں مگر سبق نہیں سیکھا سینیٹر فرحت الله بابر نے کہا کہ جمہوری حکومت ہے لیکن اطلاعات آئی ایس پی آر سے موصول ہوتی ہے ضلعی انتظامیہ سسٹم کو فعال کرنا ہوگا سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ بعض ملکوں میں پیسوں کی جگہ میٹریل دیا جاتا ہے اور سوچ سمجھ کر اسکیمیں دی جانی چاہئیں تباہ شدہ مکانات کی از سر نو تعمیرات کی ذمہ داری حکومت کی ہے کراچی میں خطرات موجود ہین اس پر سندھ حکومت کو سوچنا ہوگا سینیٹر کامل علی آغا نے کہا کہ ایر اکے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین موجود ہی نہیں سندر اسٹیٹ کا نام پوری دنیا میں مشہور تھا مگر وہاں سفارشی لوگوں کو تعینات کیا گیا اور نتیجہ سب کے سامنے ہے اور ابھی تک اس کا ملبہ نہیں ہٹایا گیا۔