چیئرمین سینیٹ نے پی آئی اے کی کارکردگی کاجائزہ لینے کیلئے کمیٹی قائم کردی

پی آئی اے ملازمین کی تعداد دوسری فضائی کمپنیوں سے زیادہ نہیں ، مزدور بہت زیادہ ہونے کا پراپیگنڈہ سرمایہ دارانہ ہے،رضا ربانی

پیر 9 نومبر 2015 22:12

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔9 نومبر۔2015ء) چیئرمین سینیٹ میاں رضاربانی نے پی آئی اے کی کارکردگی کاجائزہ لینے کیلئے کمیٹی قائم کرتے ہوئے کہاہے کہ پی آئی اے کے ملازمین کی تعداد دوسری فضائی کمپنیوں سے زیادہ نہیں ہے، یہ سرمایہ دارانہ پروپیگنڈاہے کہ مزدوربہت زیادہ ہیں،جبکہ اراکین سینیٹ نے کہا کہ دسمبر کے آخر تک پی آئی اے کی نجکاری کاعمل شروع ہوجائیگا،حکومت پی آئی اے کی نجکاری نہ کرے،مڈل ایسٹ کی تین ایئرلائن کو حکومت نے کھلی چھٹی دی جس سے پی آئی اے کے خسارے میں اضافہ ہوا، جان بوجھ کر پی آئی اے کے ساتھ ایسا کیاجارہاہے تاکہ اسے سستے داموں فروخت کردیاجائے جبکہ حکومتی سینیٹرمشاہداﷲ خان نے ایوان کو یقین دہانی کرائی کہ حکومت پی آئی اے کی نجکاری نہیں کررہی، پرائیویٹ کرنی ہوتی تو 16 جہازو ں پر کی جاتی،40جہازوں پر کون نجکاری کریگا۔

(جاری ہے)

پیر کو سینٹ کے اجلاس میں سینیٹرفرحت اﷲ بابر کی تحریک پر بحث کاآغاز کرتے ہوئے کہا کہ مشرق وسطیٰ کی ائیرلائنوں کو ترجیحی طور پر پاکستان میں مسافروں کو لانے لے جانے کے پی آئی اے کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے تاکہ پی آئی اے کو اونے پونے بیچا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ تقریباً ڈیڑھ کروڑ پاکستانی بیرون ملک مقیم ہیں اور پاکستان کا سفر کرتے رہتے ہیں اور اس کے علاوہ اس سال کی پہلی سہ ماہی میں تیل کی قیمتیں بین الاقوامی طور پر 49فیصد کم ہوگئی ہیں۔

اس کے باوجود پی آئی اے کو نقصان دیا جا رہا ہے اور کہا جاتا ہے کہ پی آئی اے کا نقصان سیاسی مداخلت کی وجہ سے ہو رہا ہے اور پی آئی اے میں ضرورت سے زیادہ اسٹاف اس کے نقصان کی وجہ ہے۔ پی آئی اے کے ملازمین کی تنخواہ کا بل آمدنی کا 16 سے 17فیصد تک ہے جو کہ اس کاروبار میں عام طور پر 25فیصد ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ائرلائن کا کاروبار مقابلے کی منصفانہ صورتحال میں فائدہ مند ہوتا ہے لیکن اس وقت مشرق وسطیٰ کی تین ائرلائنوں امارات، ابوظہبی اور قطر آئرلائن کو ترجیحی طور پر پاکستان سے مسافر لانے اور لے جانے کی سہولت دے دی گئی ہے۔

اس کی مثال دیتے ہوئے سینیٹر فرحت اﷲ بابر نے کہا کہ صرف دو سال قبل قطر ائرویزکی اسلام آباد اور لاہور کے لئے ہفتے میں صرف چار پروازیں تھیں جبکہ اس وقت قطر ائرویز کی صرف اسلام آباد کے لئے 14پروازیں ہیں اور اس کے علاوہ اس ائرلائن کو سیالکوٹ، فیصل آباد کے روٹ بھی دے دئیے گئے ہیں۔ سینیٹر فرحت اﷲ بابر نے کہا کہ وزارت خارجہ کے مطابق مشرق وسطیٰ کے شیخوں کو شکار کے لائسنس دینا پاکستان کی خارجہ پالیسی کا سنگ میل ہے۔

اور اسی طرح ایئرلائن کے کاروبار میں قومی ائرلائن کو نظرانداز کرکے مشرق وسطیٰ کی ائرلائنوں کو ترجیح دینا قومی ائرلائن کو تباہ کرنے کے مترادف ہے۔ انہوں نے کہا کہ پی آئی اے وہ ائرلائن ہے جس نے ایشیا میں سب سے پہلے 707بوئنگ طیارے خریدے تھے اور اسی ائرلائن نے ایشیا میں سب سے پہلے کارگو فلائٹ شروع کی تھی۔ اس کے علاوہ اسی ائرلائن نے پی آئی اے شیور، انجینئرنگ کے شعبوں کے علاوہ ہمارے کھلاڑیوں کو ملازمتیں مہیا کی ہوئی تھیں۔

انہوں نے کہا کہ پی آئی اے کی یہ ساری کامیابیاں اس وقت ہوئی تھیں جب اتنی بڑی تعداد میں پاکستانی بیرون ملک نہیں رہتے تھے۔ انہوں نے اس بات کا مطالبہ کیا کہ پی آئی اے کی غیرمساوی مسابقت کی تحقیقات کروائی جائیں جس کی وجہ سے پی آئی اے کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے اور پی آئی اے کو سستی قیمت پر فروخت کیا جا سکتا ہے۔ کرنل(ر)طاہر حسین مشہدی نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہاکہ پی آئی اے کی نجکاری کے بجائے اس کو منافع بخش ادارہ بنایاجائے اس کے روٹس بحال کئے جائیں۔

مشاہد حسین سید نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہاکہ پی آئی اے وفاق کی علامت ہے اس کوپرائیویٹائز نہ کیاجائے پی آئی اے پر مشاہداﷲ خان کی سربراہی میں ایوان میں کمیٹی بنائی جائے۔سینیٹرشاہی سیدنے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہاکہ اداروں کو سیاست سے آزاد کیاجائے یہ امپریشن دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ قومی ادارے ناکام ہوگئے ہیں بشمول عدلیہ وپارلیمنٹ۔

پی آئی اے کی نجکاری مسئلہ کاحل نہ ہے۔ ڈاکٹرجانزیب جمال دینی نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہاکہ پی آئی اے میں کرپشن ہے منشیات کی سمگلنگ پی آئی اے کے ذریعے ہورہی ہے پی آئی اے کی نجکاری کردی جائے تاکہ حکومت کابجٹ خسارہ کم ہو۔نعمان وزیرنے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہاکہ پچھلے دس سالوں میں پی آئی اے میں سیاسی بنیادوں پر بھرتیاں کی گئیں نااہل لوگ اداروں میں آئے جو کہ نااہلی کی وجہ ہے۔

نہال ہاشمی نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہاکہ1999ء میں پی آئی اے ایک منافع بخش ادارہ تھا پچھلے ادوار میں ایم این ایز اور ایم پی ایز کو کوٹہ دیا گیا بھرتیوں میں ہزاروں غیر قانونی بھرتی شدگان ملازمین کو بحال کیا گیا۔ پی آئی اے کے ملازمین کو نہیں بلکہ کرپٹ عناصر کو نکالاجائے۔مشاہداﷲ خان نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہاکہ پی آئی اے کے طیاروں کی تعداد جب ہماری حکومت آئی16 تھی اب وہ 40 ہونیوالی ہے پی آئی اے کی نجکاری نہیں کی جارہی شجاعت عظیم اپنے فرائض بڑے اچھی طرح سرانجام دے رہے ہیں پی آئی اے میں پچھلی حکومت نے نااہل لوگ سیاسی بنیادوں پر بھرتی کئے سپیئر پارٹس کی ترسیل کامعاہدہ بھی پچھلی حکومت نے منظورنظر افراد کے ساتھ کیا۔

شجاعت عظیم بغیر مراعات اورسیلری کے کام کررہے ہیں ہرماہ پی آئی اے کاخسارہ کم ہورہاہے۔میاں عتیق نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہاکہ حسب منشاء نجکاری منظور نہ ہے چند لوگ پی آئی اے سے منافع کمارہے ہیں شاہدخاقان عباسی چیئرمین پی آئی اے رہے اور تجربہ حاصل کرکے اپنی ایئر لائن بنالی جو اب منافع میں ہے پی آئی اے میں قریبی اور من پسند افراد کو ہٹاکر پروفیشنل لگائے جائیں۔

محسن عزیز نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہاکہ پی آئی اے میں نااہل اور جعلی ڈگریوں کے حامل افراد بھرتی ہوئے سیل پرچیز میں بھی کرپشن کی گئی نیب کو کرپٹ عناصر پرہاتھ ڈالناہوگا۔ سینیٹرسعید غنی نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہاکہ حکومت کی کرپشن اور نااہلی پر نہ کوئی چیف جسٹس بول رہا ہے اورنہ ہی کوئی ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ آرہی ہے تیل کی پرائس کی کمی کافائدہ مسافروں کو نہیں پہنچایاجارہا پی آئی اے کا نام میٹروپی آئی اے رکھ دیں پھر شاید حکومت اس کی طرف توجہ دے۔

رحمان ملک نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہاکہ پی آئی اے کا آئیڈیا ایمریٹس لے گیا ہے پی آئی اے کے حالات نجکاری کی طرف جارہے ہیں ملازمین کو نہ چلائیں بلکہ پی آئی اے کو چلائیں چیئرمین ٹکٹ نہ لیکرخود کو حاتم طائی ثابت نہ کریں چیریٹی سے ادارے نہیں چلتے یہ حاتم طائی بن کر خود کو پروموٹ نہ کریں۔وزیرمملکت شیخ آفتاب نے کہاکہ پی آئی اے میں سابقہ اداروں میں بے پناہ لوگوں کو سیاسی بنیادوں پر بھرتی کیا گیا پی آئی اے کاخسارہ50 فیصد کم ہوگیا ہے پی آئی اے کاخسارہ اب29ارب سالانہ ہے۔

بعدازاں چیئرمین سینیٹ نے پی آئی اے کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے لئے کمیٹی قائم کرنے کا اعلان کیا اورکہاکہ حالیہ اجلاس کے اختتام پر قائد ایوان راجہ ظفر الحق اور قائد حزب اختلاف سینیٹر اعتزاز احسن کی مشاورت سے آل پارٹیز کمیٹی تشکیل دی جائے گی۔انہوں نے اپنے ریمارکس میں کہاکہ سرمایہ دارانہ پراپیگنڈہ ہے کہ جس بھی ادارے کی نجکاری کرنی ہو کہا جاتا ہے کہ اس میں مزدوروں کی تعداد زیادہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ پی آئی اے میں فی جہاز اگر ملازمین کی تعداد کا موازنہ برٹش ایئرویز سے کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس کے اخراجات پی آئی اے سے بھی زیادہ ہیں۔