روس کی شام میںآ مد،پہلے اسلحہ اور جنگی سامان بھیجا، مالی معاونت کی، پھر فوج بھیجی اور اب روسی ادب بھی شام کے تعلیمی اداروں میں داخل ہوگیا، رپورٹ

اتوار 8 نومبر 2015 15:07

دمشق (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔8 نومبر۔2015ء) روس نے شام میں اپنے دیرینہ حلیف بشارالاسد کی حکومت کو بچانے میں اس کی مدد میں کیا کچھ نہیں کیا، پہلے اسلحہ اور جنگی سامان بھیجا، مالی معاونت کی، پھر فوج بھیجی اور اب پتا چلا ہے کہ روس شام کے تعلیمی اداروں میں بھی داخل ہو چکا ہے جہاں چھوٹی جماعتوں سے لے کر جامعات تک روسی زبان و ادب پڑھایا جانے لگا ۔

عرب میڈیا کے مطابق اگرچہ روسی زبان و ادب سکھانے کا یہ عمل پورے شام میں نہیں مگر جہاں جہاں صدر اسد کی فوج کا کنٹرول قائم ہے وہاں کے تعلیمی نصاب میں روسی زبان کو عربی کے ساتھ کلیدی درجہ حاصل ہے۔ ساحلی شہر اللاذقیہ اس باب میں سب سے آگے ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیاہے کہ اللاذقیہ کے پرائمری اسکولوں میں روسی زبان کو غیرمعمولی پذیرائی حاصل ہے۔

(جاری ہے)

صدر بشارالاسد کی ہمنوائی کا دم بھرنے والے ذرائع ابلاغ بھی اس باب میں پیچھے نہیں۔ ذرائع ابلاغ بھی روسی زبان میں رپورٹنگ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اب روسی زبان اسکولوں سے ہوتی ہوئی جامعات کی سطح پر پہنچ چکی ہے۔روسی ذرائع ابلاغ نے اللاذقیہ میں اسکول کی چھوٹی جماعتوں کو پڑھائی جانے والی روسی زبان کو خاص کوریج دی ہے۔ ایک تصویری رپورٹ میں ساتویں جماعت کی ایک طالبہ کو روسی زبان میں لکھتے اور پڑھتے دکھایا گیا ہے۔

روسی میڈیا کا دعویٰ ہے کہ اللاذقیہ میں روسی زبان کو بڑی پذیرائی حاصل ہے اور بچے شوق سے روسی زبان سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔۔ اللاذقیہ شہر میں روسی فوج کے متعدد مرکز قائم ہیں۔ ان میں روسی فوج کے زیراستعمال "حمیحیم" فوجی اڈہ، الروس کا علاقہ اور دیگر مراکز اہمیت کے حامل ہیں جہاں ہمہ وقت روسیوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ساحل سمندر پرواقع اللاذقیہ صدر بشارالاسد ، ان کے والد حافظ الاسد کا آبائی شہر ہونے کی وجہ سے بھی روس کے لیے کافی کشش رکھتا ہے۔

عشروں سے یہاں پر روسی سیاحوں کی آمد رہی ہے۔ یہاں پر روسی فوجیں شامی فوجیوں کو جنگی تربیت فراہم کرتی اور جنگجو تیار کرتی رہی ہیں۔ یہاں کے ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو روس کی جامعات میں تعلیم کے حصول کے لے بھیجا گیا جنہوں ں ے سول انجینیرنگ، میکینیکل انجینیرنگ اور طب سمیت متعدد شعبوں مین تعلیم حاصل کرنے ساتھ روسی زبان وادب میں بھی مہارت حاصل کی۔

اخبارات میں آنے والی خبروں میں اللاذقیہ کے مقامی باشندوں کے تاثرات بھی بتائے گئے ہیں اور یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ اللاذقیہ میں روسی زبان کو اس لیے بھی پذیرائی حاصل ہے یہ یہاں کے لوگ اسے حصول روزگار کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ یہاں کی مقامی آبادی کو اندازہ ہے کہ روسی فوج، سیاح اور دیگر روسی خاندانوں کی یہاں آمد کا سلسلہ ختم نہیں ہو گا بلکہ آنے والے وقتوں میں روسیوں کی تعداد میں غیرمعمولی اضافہ ہو گا۔

یوں وہ روسیوں کے ساتھ کام کرتے اوران کے ساتھ مل کر کاروبار بھی کرتے ہیں۔مقامی دکانداروں کا کہنا ہے کہ روسی شہری ان کے سب سے بڑ اور اہم ترین گاہک ہیں۔ اگرچہ روسیوں کی رہائیش کے لیے مختص کالونیوں میں مقامی لوگوں کو ریستوران اور کیفی ٹیریاز کھولنے کے لیے کئی پیچیدہ مراحل سے گذرنا پڑتا ہے مگر ان ریستورانوں میں شراب بھی عام دستیاب ہوتی ہے۔ حمیحیم کا فوجی اڈہ اس حوالے سے اہمیت رکھتا ہے۔ یہاں پر کسی قسم کی سرمایہ کاری کے لیے فوجی افسروں اور ان کے مقربین کو آسانی سے اجازت مل جاتی ہے مگر شام کے دوسرے علاقوں سے تعلق رکھنے والے کسی اور شہری کے لیے یہاں پر کاروبار کے لیے پرمٹ حاصل کرنا کافی مشکل ہوتا ہے۔

متعلقہ عنوان :