بھارت میں ادیبوں اور شاعروں کی جانب سیسرکاری ایوارڈز واپس کرنے کا سلسلہ ایک تحریک کی شکل اختیار کر گیا

اب تک 23شاعر، ادیب اور دانشور اپنے ایوارڈ بطورِاحتجاج واپس کرنے کا اعلان کر چکے ہیں مودی سرکارعوام اور قلم کاروں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہو گئی، ادیبوں کا موقف

منگل 13 اکتوبر 2015 22:35

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 13 اکتوبر۔2015ء) بھارت میں ادیبوں اور شاعروں کی جانب سیسرکاری ایوارڈز واپس کرنے کا سلسلہ ایک تحریک کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ اب تک 23شاعر، ادیب اور دانشور اپنے ایوارڈ بطورِاحتجاج واپس کرنے کا اعلان کر چکے ہیں۔وہ کنڑا زبان کے مصنف پروفیسرایم ایم کلبرگی کے قتل اور گزشتہ دنوں دادری میں گائے کا گوشت کھانے کی افواہ پر ایک مسلمان کے قتل کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔

ایوارڈز واپس کرنے والے معروف ادیبوں کا کہنا ہے کہ مودی سرکارعوام اور قلم کاروں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہو گئی ہے جبکہ اس حوالے سے انہیں ساہتیہ اکیڈمی کی خاموشی پر بھی تشویش ہے۔ساہتیہ اکیڈمی بھارت کے پہلے وزیراعظم جواہر لال نہرو نے قائم کی تھی اور وہی اس کے پہلے چیئرمین تھے۔

(جاری ہے)

مزے کی بات یہ ہے کہ نہروکی پوتی نین تارا سہگل نے بھی اپنا ایوارڈ واپس کردیا ہے۔

اکیڈمی ملک میں ادب کو فروغ دینے کا انتہائی باوقارادارہ ہے جو ہر سال 24زبانوں میں بہترین ادب تخلیق کرنے والے شاعروں اور ادبیوں کے لیے ایوارڈز کا اعلان کرتا ہے۔ انگریزی زبان کے لیے پہلا ساہتیہ ایوارڈ 1960 میں ناول نگارآرکے نارائن کو ان کے ناول "دی گائیڈ" پر ملا تھا۔اس وقت ایوارڈ کے ساتھ پانچ ہزار روپے دیے جاتے تھے ۔اب یہ رقم ایک لاکھ روپے ہوگئی ہے۔

اکیڈمی کی ساٹھ سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ کسی ایک نے نہیں بیسیوں ادیبوں نے اپنا ایوارڈ واپس کرنے کا اعلان کیاہیاور یہ سلسلہ کہیں رکنے کا نام نہیں لے رہا ۔جو یقینی طور پر اکیڈمی کی ساکھ پر ایک سوالیہ نشان ہے ۔اکیڈمی نے اس صورتحال پر اپنا ردعمل مرتب کرنے کے لیے 23اکتوبر کواپنے 27 رکنی انتظامی بورڈ کااجلاس طلب کیا ہے۔لیکن چیئرمین وشواناتھ پرساتھ ٹیواری کے نین تارا سہگل کے خلاف بیان نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ نین تارا ایوارڈ ملنے کے بعد جو فوائد حاصل ہوئے انہیں وہ بھی واپس کرنے چاہئیں۔

نین تارا بھی نہروکی پوتی ہیں ۔خاموش نہیں رہیں اور ٹیواری سے کہا کہ ایک ادیب کے طور پر وہ ایوارڈ ملنے سے پہلے ہی اپنی ساکھ بنا چکی تھیں ۔رہا رقم کا سوال تو جب انہیں ایوارڈ ملا اس کی رقم 25,000روپے تھی جسے دوگنا کر دیا جائے تو یہ رقم 50,000روپے بنتی ہے لیکن اب وہ اکیڈمی کو ایک لاکھ روپے دے رہی ہیں۔کوئی بھی شاعریا ادیب نہ تو سماجی کارکن ہوتا ہے نہ ہی سیاسی رہنما۔

وہ اپنے افکار کی دنیا میں رہتا ہیاور اس کے پاس کسی بھی ناپسندیدہ عمل کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کروانیکے دو ہی ہتھیار ہوتے ہیں ۔یا تو وہ لکھتا ہے یا حکومت کی جانب سے ملنے والیخلعت و دستار واپس کرنے کا اعلان کرتا ہے۔جیسا کہ 2010 میں ہندی مصنف کرشنا سوبتی اور بنگالی ڈرامہ نگار بادل سرکار نے پدما بھوشن لینے سے انکار کردیا تھا۔ارون دتی رائے بھی 2006 میں ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ لینے سے انکار کرچکی ہیں۔

ادب کا نوبیل انعام لینے سے انکار کرنے والے واحد ادیب ژان پال سارتر ہیں۔بھارت کے موجودہ وزیراعظم مودی ممکن ہے پہلے وزیراعظم کے لیے محبت کے زیادہ جذبات نہ رکھتے ہوں لیکن یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ جواہر لال نہرو نیالہ آباد کے ایک عوامی اجتماع میں اپنا اور ہندی شاعر تریپاتھی نرالا کا موازنہ کرتے ہوئے ایک بادشاہ اور اس کے دوبیٹوں کی چینی کہاوت سنائی تھی۔

بادشاہ کا ایک بیٹا عقل مند تھا اور دوسرا کم عقل۔جب بادشاہ کی دنیا سے رخصتی کا وقت آیا تو اس نے اپنے کم عقل بیٹے سے کہا کہ وہ اسے اپنی ساری بادشاہت دے رہے ہیں جبکہ عقل مند بیٹے کو اس سے زیادہ اعلی مقام دے رہے ہیں ۔اسے صرف شاعری کرنی چاہیے۔یہ کہتے ہوئے نہرو اپنی نشست سے اٹھے اور اپنا ہار شاعر نرالا کو پہنا دیا۔نہرو کے اس عمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف شاعروں اور ادیبوں کی خود عزت وتکریم کرتے تھے بلکہ حکومتی سطح پر ان کی سرپرستی کے بھی داعی تھے۔

ہندوستانی تاریخ کا بہترین دور وہ تھا جب شہنشاہ بذاتِ خود فنکاروں کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے اور ان کی آزادی کا خیال رکھتے تھے۔اگر اس وقت مغل شہنشاہوں میں اکبر کو زیادہ پسندکیا جاتا ہے توا س کی سب سے بڑی وجہ ان کے دربار سے وابستہ نورتن تھے۔لیکن اب یہ عالم ہے کہ مودی سرکار کے وزیرثقافت مہیش شرما کہتے ہیں کہ اگر ادیب اور شاعر محسوس کرتے ہیں کہ انہیں لکھنے یا بولنے کی آزادی نہیں تو وہ پہلے لکھنا اور بولنا چھوڑ دیں پھر حکومت سوچے گی کہ اسے کیا کرنا ہے۔

اپنے ایوارڈز واپس کرنے والے بھارت کی مختلف زبانوں اور ریاستوں سے تعلق رکھنے والے ادبیوں کے اس قافلے میں کشمیری ادیب بھی شامل ہو گئے ہیں۔معروف کشمیری ادیب غلام نبی خیال کا کہنا ہے کہ بھارت میں اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے انتہائی تکلیف دہ ہے۔ایوارڈ واپس کرنا ہی ناراضی کے اظہار کا واحد ذریعہ ہے۔ایک انسان کے طور پر میں ایک ایسے ملک میں رہنا چاہتا ہوں جو سیکولر ہو۔

جہاں اظہارِ رائے کی آزادی ہو اور اقلیتوں کو تحفظ حاصل ہو۔ایوارڈ واپس کرنے والے ایک اور بھارتی ادیب جوشی کہا کہنا ہے کہ ماحول میں نفرت پھیلا دی گئی ہے۔تخلیق کاروں کے لیے سانس لینا محال ہے ۔ہم ادیب آکسیجن کی کمی محسوس کر رہے ہیں۔ہمیں لکھنے کے لیے کھلی فضا چاہیے۔ہمیں ایوارڈ کی شکل میں آکسیجن سلنڈر کی ضرورت نہیں۔ادیبوں پر حملے نہ صرف افسوسناک ہیں بلکہ آزادی اظہار چھیننے کے مترادف ہیں۔

کچھ ادیب ایسے بھی ہیں جو اپنے ساتھی ادیبوں کے احتجاج کی تو حمایت کرتے ہیں لیکن ایوارڈز واپس کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔ان کے خیال میں ایوارڈ واپس کرنے سے ساہتیہ اکیڈمی کی ساکھ متاثر ہو گی اور حکومت اسے اپنے کنٹرول میں لے لے گی ۔ اس طرح ادب اور اہلِ ادب کو جو نقصان ہو گا ، ناقابلِ تلافی ہو گا۔ اکیڈمی تو پہلے بھی ادیبوں کے قتل پر خاموش رہی ہے ۔کسی نے پہلے کیوں نہیں ایوارڈ واپس کیا۔ پاش قتل ہوئے ، مان بہادر سنگھ قتل ہوئے ۔اس پر کسی نے کیوں احتجاج نہیں کیا؟۔

متعلقہ عنوان :