تحر یک انصاف نے حکومتی کی آٹو پالیسی میں وفاقی وزیر پانی وبجلی کو رکاوٹ قرار دیا ‘10سوالات کے جوابات بھی مانگ لیے

کیا آٹو پالیسی حکومتی ترجیحات میں شامل ہے؟ خواجہ آصف بطور ممبر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی 2009سے 2013تک گاڑیاں تیار کرنے والی کمپنیوں کو غیر معیاری گاڑیاں تیار کرنے پر آڑے ہاتھوں لیتے رہے‘پوری قیمت ادا کرنے کے باوجود صارفین کو بلیک منی یا اون کیوں ادا کرناپڑتا ہے؟،تحر یک انصاف چیئر مین سیکرٹریٹ کا اعلامیہ

منگل 13 اکتوبر 2015 19:05

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 13 اکتوبر۔2015ء) پاکستان تحر یک انصاف نے حکومتی کی آٹو پالیسی میں وفاقی وزیر پانی وبجلی خواجہ آصف کو رکاوٹ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت سے10سوالات کے جواب مانگ لیے ۔ منگل کوتحر یک انصاف چیئر مین سیکرٹریٹ کی جانب سے جاری اعلامیہ میں کہا ہے کہ تحریک انصاف نے ن لیگ کی حکومت کی نا اہلی پرسوالات کے جوابات مانگتے ہوئے کہا ہے کہ کیا آٹو پالیسی حکومتی ترجیحات میں شامل ہے؟ خواجہ آصف بطور ممبر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی 2009سے 2013تک گاڑیاں تیار کرنے والی کمپنیوں کو غیر معیاری گاڑیاں تیار کرنے پر آڑے ہاتھوں لیتے رہے۔

لیکن جب بطور وفاقی وزیر انہیں خود بہتری لانے کا موقع ملا تو وہ خود بھی اسی گروہ کا حصہ بن چکے ہیں جو کہ گزشتہ کئی دھائیوں سے پاکستان میں صارفین کو غیر معیاری اور حفاظتی آلات کے بغیر گاڑیاں بنا کردے رہے ہیں ۔

(جاری ہے)

خواجہ آصف خود ہی آٹو پالیسی کی راہ میں رکاوٹ ثابت ہورہے ہیں جس کی وجہ سے حکومت آٹو پالیسی بنانے میں ناکام رہی ۔ اس طرح ناصرف اس بہت بڑی انڈسٹری کو نقصان ہورہاہے بلکہ ملک کی معیشت کو بھی نقصان ہو رہاہے نواز شریف حکومت بار بار کی یقین دہانیوں کے باوجود ابھی تک آٹو پالیسی کیوں نہیں بنا رہی؟کیا وجہ ہے کہ خواجہ آصف اور ان جیسے دیگر نواز شریف کے انتہائی قریبی اور لائق لوگ ایف بی آر ، کار میکرز اور نئے سرمایہ کاروں کو اکٹھا کرکے صارفین کے لیے اچھی اور ارزاں گاڑیوں کی فراہمی میں ناکام ہیں؟کیا وجہ ہے کہ خواجہ آصف آٹو موٹیو ڈیویلپمنٹ پالیسی 2014-19بنانے میں رکاوٹ بن رہے ہیں؟کیا وجہ ہے کہ خواجہ آصف نے 45دن کی ڈیڈ لائن کے باوجود 720دن گزار دیے اور ابھی تک آٹو پالیسی نہیں بن سکی؟پاکستان میں گاڑیوں میں بنیادی حفاظتی آلات مہیا کیوں نہیں کیے جاتے؟پوری قیمت ادا کرنے کے باوجود صارفین کو بلیک منی یا اون کیوں ادا کرناپڑتا ہے؟کیا آٹو پالیسی پر کسی بھی لیول پر حکومتی ترجیحات میں شامل ہے؟آج سے دوسال قبل 2اکتوبر2013 کواقتصادی رابطہ کمیٹی نے وفاقی وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف، چیئرمین بورڈ آف انویسٹمنٹ،چیئرمین ایف بی آر،انڈسٹریز سیکرٹری اور چیف ایگزیکٹو انجینئرنگ ڈیویلپمنٹ بورڈ پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی تھی جسکا مقصد اگلے 45روز میں آٹو پالیسی کو فائنل کرنا تھا لیکن تاحال 720سے زیادہ دن گزرنے او ربہت سی میٹنگز کرنے کے باوجود آٹو پالیسی کا وجود کہیں بھی نہیں ہے‘ پاکستان میں آٹو موبائل انڈسٹری میں پالیسی کا تسلسل نا ہونے کی وجہ سے جہاں ملک میں نئی سرمایہ کاری نہیں ہو رہی وہاں اس امر سے سب سے زیادہ صارفین متاثر ہورہے ہیں ۔

صارفین مارکیٹ میں موجود چند لوگوں کے مافیا کی وجہ سے پرانے ماڈلز اور حفاظتی انتظامات جیسا کہ ائیر بیگ اور اے بی ایس بریکس کے بغیر بنائی گئی گاڑیاں خریدنے پر مجبور ہیں صرف یہی نہیں بلکہ اگر کوئی صارف گاڑی خریدنا چاہے تو اسے گاڑی کی پوری قیمت ایڈوانس جمع کروانے کے بعد مہینوں گاڑی کی ڈیلیوری کا انتظار کرنا پڑتا ہے اور اگر فوراًگاڑی لینی ہو تو لاکھوں روپے کا بھتہ ادا کرنا پڑتا ہے جسے عرف الاعام میں اون کہا جاتا ہے۔

آٹو موٹیو ڈیویلپمنٹ پالیسی 2014-19کا ڈرافٹ منسٹری آف انڈسٹریز اور اقتصادی رابطہ کمیٹی نے پیش کیا جسے انجینئرنگ ڈیویلپمنٹ بورڈ نے بنایا تھا۔اس ڈرافٹ کا مقصد موجودہ گاڑیاں تیار کرنے والوں کو ٹیکس میں چھوٹ اور تحفظ دینا ہے۔لیکن ایف بی آر نے موجودہ گاڑیاں تیار کرنے والی کمپنیوں کو کسی قسم کی رعایت جو کہ چاہے پلانٹس کی بندش ختم کرنے کے حوالے سے ہو یا پلانٹس کی صلاحیت میں اضافے کے لیے اس کی مخالفت کی ہے کیونکہ یہ تمام پلانٹس گزشتہ دو دہائیوں سے ایسی بہت سی رعایتوں سے فائدہ اٹھا تے چلے آرہے ہیں۔

ایف بی آر نے ان پلانٹس کی تکنیکی جدت کے حوالے سے سوالات اٹھائے ہیں۔اس حوالے سے کوئی ایسا نظام بھی موجود نہیں ہے جو کہ اس طرح کی ٹیکس رعایتوں کی صارفین کو کم قیمتوں یا جدید گاڑیوں کی صورتوں میں فراہمی کو یقینی بنائے۔ان حقائق کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئی ایف بی آر نے پہلے سے گاڑیاں تیار کرنے والوں کے لیے اس طرح کی رعایتوں کی مخالفت کی۔

جبکہ ایف بی آر اور کمپیٹیشن کمیشن آف پاکستان نے استعمال شد ہ گاڑیوں کی معیاد میں تین سال سے اضافہ کرکے پانچ سال کرنے کی بھی حمایت کی ہے۔ان اقدامات کا مقصد مارکیٹ میں موجود تین کمپنیوں کی اجارہ داری ختم کرکے ایک بہتر مقابلہ کا موحول پیدا کرنا ہے تاکہ صارفین کو اچھی اور سستی گاڑیاں مہیا کی جاسکیں آٹو موٹیو ڈیویلپمنٹ پالیسی کا ڈرافٹ پیش کرنے کے دوسال بعد بھی حکومت اور لوکل گاڑیاں تیار کرنے والے پلانٹس پالیسی کے حتمی ڈرافٹ سے کوسوں دور ہیں۔ حکومت ہمسایہ ملک انڈیا کی طرح ایسی قابل عمل آٹو پالیسی تیار کرنے میں تاحال ناکام ہے جس کے ذریعے اس انڈسٹری میں سرمایہ کاری ، ملازمتوں اور مقامی ضروریات اور ایکسپورٹ کے لیے جدید کم قیمت گاڑیوں کی تیاری کو فروغ مل سکے۔

متعلقہ عنوان :