آخری حصے کے آبادگاروں تک پانی کی رسائی کے مسائل پر مشترکہ حکمت عملی وضع کی جائے گی ،آبادگاروں اور سول سوسائٹی کا فیصلہ

منگل 13 اکتوبر 2015 18:47

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 13 اکتوبر۔2015ء) پانی ماہرین ، ایری گیشن افسران ، آبادگاروں اور سول سوسائٹی نے سندھ میں پانی کی مطلوبہ مقدار ، کینالز ، بیراجز ، سیم نالوں اور آخری حصے کے آبادگاروں تک پانی کی رسائی کے مسائل پر مشترکہ حکمت عملی وضع کرنے کرنے کا اعلان ، زراعت و پانی کے مسائل کے حل کی تجاوز اتفاق،کینال ، بیراجز ، کی بھل صفائی ، مرمت اور تعمیر کا عمل شروع کردیا گیا ہے، گڈو بیراج کی مرمت و تعمیر کا کام شروع، ایل بی او ڈی کی ڈزائین میں پانی کا بہاؤ 2400سے بڑھا کر 4500کیوسک تک لے آئے ہیں : سیکریٹری ایریگیشن سندھ ظہیر حیدر شاہ کا صوبائی واٹر کانفرنس سے خطاب ۔

تفصیلات کے مطابق صوبائی واٹر کانفرنس لاڑ ہیموٹیرین اور انڈس کنسورشم کے زیر اہتمام کراچی کے مقامی ہوٹل میں منعقد کی گئی، جس میں ملک بھر سے پانی ماہرین ، ایریگیشن افسران ، آبادگاروں سمیت سول سوسائٹی کے نمائندوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی ۔

(جاری ہے)

صوبائی واٹر کانفرنس سے صوبائی سیکریٹری ایریگیشن سندھ ظہیر حیدر شاھ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سندھ میں پانی کی مطلوبہ مقدار کے حصول او ر سرے سے آخری حصے تک پانی کی تقسیم و رسائی کیلئے سندھ حکومت اور محکمہ ایریگیشن اپنے وسائل کو بروئے کار لارہے ہیں ، آبادگاروں ، محکمہ اریگیشن ،سیڈا اور سندھ حکومت کا ایک ہی مؤقف ہے کہ پانی کو آخری حصے تک پہنچایا جائے ، یہ ٹیل کے لوگوں کا بنیادی حق ہے ، انہوں نے کہا کہ سب سے پہلے گڈو بیراج کی مرمت اور بحالی کا کام ورلڈ بینک کے تعاون سے شروع کیا گیا ہے ، اس کے بعد سکھر بیراج کی مرمت و بحالی شروع کردی جائیگی ، انہوں نے کہا کہ کینالز ، نالوں ، اور بیراج کی بھل صفائی اور پشتے مضبوط کر رہے ہیں ، ایل بی او ڈی سم نالے کی ڈزائن میں تبدیل کرکے پانی کا بہاؤ ` 2400سے بڑھا کر 4500 کیوسک پر لے آئے ہیں ، انہوں نے اعلان کیا کہ ورلڈ بینک سے پانی کی تقسیم اور واٹر لائین کے حوالے سے پراجیکٹ لا رہے ہیں جس سے سندھ کے آبپاشی نظام میں بہتری آئیگی ، انہوں نے محکمہ ایریگیشن کی جانب سے 2015 سے سیلاب کے حوالے سے کارکردگی کو سراہتے ہوئے کہا کہ ایریگیشن عملے نے تند ہی اور ذمہ داری سے مقامی افراد سے مل کر سیلاب کو روکنے میں کامیابی حاصل کی انہوں نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ پانی کی منصفانہ تقسیم سے آبادگاروں و زمینداروں کو فائدہ ہوگا ، فصل اچھے ہوں گے جس کا نہ صرف آبادگاروں کو فائدہ ہوگا لیکن حکومت کو بھی فائدہ ہوگا ، اس لیے یہ ضروری ہے کہ ملک وملت کی ترقی و خوشحالی کیلئے ہم سب کو مل کر کام کرنا چاہیے ۔

سیڈا کے رہنمانظیر احمد میمن نے کہا کہ ایریگیشن نظام زندگی کے دیگر شعبوں سے زیادہ مشکل ہے جس میں بہتری اور تبدیلی کی اشد ضرورت ہے ، اس میں آبادگاروں ، سول سوسائیٹی کی شراکت لازمی ہے ، انہوں نے کہا کہ عام خیال ہے کہ ایریگیشن کی بہتری میں شراکت پر بالا طبقہ نا خوش ہوگا ، حالانکہ 350سے زائد آبادگاروں کی تنظیموں میں مڈل کلاس یا ورکنگ کلاس ہیں کوئی وڈیرہ یا جاگیر دار شامل نہیں ، نہ وہ انکی حمایت کرتے ہیں ، انہوں نے کہا کہ ہمیں طبقات اور ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر مجموعی بھلائی کیلئے مل کر کام کرنا ہوگا ۔

سندھ آبادگار بورڈ کے رہنما و پانی ماہر محمد نواز نے ملک میں پانی کے نظام کو مکمل طور پر رد کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے پانی ماہرین ، ایریگیشن افسران اور حکمران ۔۔ کی بنیاد پر کام نہیں کرتے ، آج تک پانی پانی مقدار اور تقسیم کے حوالے سے حقائق پر مبنی تحقیق واعداد و شمار موجود ہی نہیں ، انہوں نے کہا کہ پانی کی قلت کا عالم یہ ہے کہ کپاس کے فصل کی حوصلہ شکنی کرکے گنے کے فصل کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے اور ندیوں نالوں اور بیراجز کے آخری حصے خشن پڑے ہوئے ہیں ، زمین تباہ ہورہی ہیں ، انہوں نے کہا کہ ایریگیشن واحد محکمہ ہے جس کے افسران کی ترقیاں اہلیت کی بنیاد پر نہیں کی جاتیں تو حالات کیسے بہتر ہوں گے ، انہوں نے کہا کہ پانی کی اہمیت انسانوں کے علاوہ زراعت کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔

ایس پی او رہنما رحیماں پنہور نے آبپاشی نظام میں عورت کے مسائل پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عورت کو صرف نام وکانہ پوری پر لیا جاتا ہے ، لیکن حقیقت کہ زرعی دنیا میں عورت کی کی کوئی اہمیت نہیں دی جاتی ، زمینوں کو عورت میں تقسیم کرنے کوایک مذاق سمجھا جاتاہے ، جو زمینیں دی جاتی ہیں ان کا مالک عملی طور پر مرد ہی ہے ، عورت کو دینے کیلئے زمین کی ہی نہیں ہے ، انہوں نے کہا کہ کسانوں کی تنظیمیں عورتوں میں شعور بیدار کریں اور انہیں لیبر کے طور متعارف کرانے کے بجائے فیصلہ سازی ، اہم کردار ادا کرائیں ، خود عورت کو آگے آنا ہوگا ، علم و عقل کی بنیاد پر اپنے حقوق کے حصول کیلئے جدوجہد کرنا ہوگی۔

آکسفیم اشیا ء کو آرڈینیٹرمصطفی ٹالپر نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ پانی کا مسئلہ دن بدن خراب ہورہا ہے ، آبادی میں اضافہ اور پانی کی مقدار میں کمی ہورہی ہے، اپ اسٹریم پر ڈیمز بنائے جارہے ہیں ، حکومت کو پانی کے مسئلے پر پالیسی مرتب کرنی چاہیے۔مہران یونیورسٹی کے ڈاکٹر بخشل لاشاری نے کہا کہ ہماری یونیورسٹیز اب قابل انجینئر اور گریجوئیٹس نہیں لارہے ہیں جسکی وجہ سے پانی کا مسئلہ حل نہیں ہورہاہے ، ٹیل تک پانی نہ آنے سے خوراک کے تحفظ اور قلت کا مسئلہ سامنے آرہا ہے ، ہمارے ہمسایہ ملک انڈیا کی زرعی حالت ہم سے بہتر ہیں ، پاکستان میں پنجاب ، خیبر بختون خواہ کی حالت بھی سندھ سے بہتر ہیں ، یہ صورتحال سندھ کیلئے تشویشناک ہے ، اس سے پہلے کہ حالات مزید خراب ہوں ہم سب کو مل کر سنجیدگی سے کام کرنا چاہیے ، ہمیں پانی کا مسئلے پر تحقیقات کرکے حل تلاش کرنا چاہیے۔

پنجاب ایریگیشن ڈولپمنٹ اتھارٹی کے محمد افضل تور نے کہا کہ پنجاب میں ایریگیشن نظام میں بہتری کی کافی گنجائش موجود ہے ، PIDAہم مقامی آبادگاروں اور اسکی تنظیموں سے مل کر کام کر رہے ہیں ، انہوں نے کہا کہ ہماری یونیورسٹیوں سے قابل اور اچھے انجینئر فیلڈز میں آرہے ہیں جس سے ملک کو فائدہ ہورہا ہے ، انہوں نے صوبائی پانی کانفرنس میں موجود ملک بھر سے آبادگاروں ، پروفیسرز اور ریریگیشن ماہرین کی موجودگی کو سراہا ۔

پروفیسر سندھ ایگریکلچر یونیورسٹی اسماعیل کنبھر سندھ کے دیہات میں نقل مکانی ہورہی ہے ، اس کا سبب آخری حصے میں پانی کی قلت ہے ، پانی کی تقسیم غیر منصفانہ ہورہی ہے ، ہمیں ٹیل اینڈ کے علاقوں پر فوکس کرنا چائیے۔ اس موقع پر لاڑ ہموٹیرین کے ڈائیریکٹر اقبال حیدر نے پانی کے مسئلے پر کانفرنس میں تجاویز دیتے ہوئے کہا کہ ہمارے آبپاشی نظام میں آخری سرے کے علاقوں میں اس وقت پانی کی شدید قلت پیدا ہوجاتی ہے جب فصلوں کو پانی لگانے کا وقت ہوتا ہے ، اس کی وجوہات میں فرسودہ بنیادی ڈھانچہ ، پیشہ ورانہ عملے کی قلت ، لاا پرواہی ، سیاسی مداخلت اور کمزور طرز حکمرانی شامل ہیں ، پانی کی قابل بھروسہ اور مساویانہ تقسیم ہمارے نظام میں ایک اہم مسئلہ بن چکی ہے ، سندھ میں ابپاشی کے نظام کو جدید طریقوں ، شراکتی طرز اختیار کرنے اور فیصلہ سازی کے عمل میں تمام اہم شراکتداروں کی شررکت کے ذریعے بہتر بنانے کی ضرورت ہے ، سندھ میں میٹھے پانی کے زیر زمین ذخائر بہایت محدود ہیں ، زیر زمی پانی کی مقدار اور معیار کی متواتر نگرانی صوبے میں پانی کے ذخائر کے حوالے سے مثبت نتائج دے سکتی ہے ، میٹھے پانی والے علاقوں میں پانی کے مربوط استعمال کا تصور متعارف کرانے کی ضرورت ہے ۔

کانفرنس سے ڈاکٹر مبشر ، حاجی ابوذر ملاح ، فضا قریشی و دیگر نے خطاب کیا ۔

متعلقہ عنوان :