آڈٹ رپورٹس کے ذریعے حکومتی بے ضابطگیوں کی نشاندہی ہونے پر ہرسال 40ارب روپے کی ریکوری ہوتی ہے ،اگر آڈیٹر جنرل پاکستان کا ادارہ پوری طرح کام کرنا شروع کر دے تو نیب اور ایف آئی اے والے فارغ ہو جائیں گے

آڈیٹرجنرل پاکستان رانا اسد امین کی میڈیا سے گفتگو

پیر 12 اکتوبر 2015 22:41

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 12 اکتوبر۔2015ء ) آڈیٹر جنرل آف پاکستان رانا اسد امین نے کہا ہے کہ ہماری آڈٹ رپورٹس کے ذریعے حکومتی بے ضابطگیوں کی نشاندہی ہونے پر ہرسال 40ارب روپے کی ریکوری ہوتی ہے ،اگر آڈیٹر جنرل پاکستان کا ادارہ پوری طرح کام کرنا شروع کر دے تو نیب اور ایف آئی اے والے فارغ ہو جائیں گے ۔ وہ پیر کو مقامی ہوٹل میں پبلک فنانشل مینجمنٹ کانفرنس کی تقریب سے خطاب اور بعد ازاں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے ۔

آڈیٹر جنرل پاکستان رانا اسد امین نے کہا کہ بدلتے ہوئے حالات میں فرانزک آڈٹ کی ضرورت بڑھ گئی ہے اس سلسلے میں اگر نیب کے ساتھ کوئی معاہدہ ہو جائے تو کرپشن کے خاتمے میں آسانی ہو سکتی ہے ۔پاکستان میں آڈٹ کے نظام میں بہتری کیلئے عالمی بنک ایک ارب روپے کی مالی امداد دینے کیلئے تیار ہو گیا ہے ۔

(جاری ہے)

انہوں نے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف پبلک فنانس اکاؤنٹس اور چارٹرڈ انسٹی ٹیوٹ آف پبلک فنانس اکاؤنٹنٹسی کے درمیان ہونے والے معاہدے کو خوش آئند قرار دیا اور کہا کہ اس معاہدے سے پیفا کی کارکردگی مزید بہتر ہو گی اور پاکستان میں محکمہ آڈٹ اور اکاؤنٹنسی کا نظام بہتر ہو جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ ہماری آڈٹ رپورٹس کے ذریعے حکومتی بے ضابطگیوں کی نشاندہی ہونے پر ہرسال 40ارب روپے کی ریکوری ہوتی ہے ۔ہمارے محکمے کے کل اخراجات صرف 3ارب روپے ہیں ،اگر آڈیٹر جنرل پاکستان کا ادارہ پوری طرح کام کرنا شروع کر دے تو نیب اور ایف آئی اے والے فارغ ہو جائیں گے ۔کانفرنس کے دوسرے سیشن سے خطاب کرتے ہوئے ایڈیشنل سیکرٹری فنانس ڈاکٹر شجاعت نے کہا کہ پاکستان میں اس وقت جی ڈی پی کے تناسب سے قرضوں کی شرح 62فیصد ہے جسے کم کر کے 57فیصد کی شرح پر لایا جائے گا۔

موجودہ حکومت کی مالیاتی اصلاحات کے باعث جی ڈی پی کے تناسب سے بجٹ خسارہ گزشتہ دو برسوں میں 8فیصد سے کم ہو کر 5.4فیصد کی سطح پر آ گیا ہے جسے 2017ء تک 3.5فیصد لانے کی حکمت عملی تیار کی گئی ہے ۔کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سابق وفاقی وزیر خزانہ ڈاکٹر سلمان شاہ نے کہا کہ پاکستان میں بڑھتی ہوئی آبادی اور نوجوانوں کی تعداد کے پیش نظر ہر سال 30لاکھ نئی ملازمتوں کی ضرورت ہے جس کے لئے جی ڈی پی کی شرح 8سے9فیصد ہونی چاہئے اس وقت جی ڈی پی کی شرح 4سے5فیصد کے درمیان ہے لہذا حکومت کو چاہئے کہ وہ ملک میں زیادہ سے زیادہ صنعتیں لگائے اور ایسی منصوبہ بندی کرے جس سے بے روزگاری اور غربت میں کمی ہو سکے ۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں سالانہ 60سے65ارب ڈالر کا بجٹ خرچ ہو رہا ہے جس کی سخت ترین مانیٹرنگ کی ضرورت ہے ۔وفاق اور صوبوں کی سطح پر ہونے والی ترقیاتی منصوبوں پر خرچ ہونے والی رقم کا تھرڈ پارٹی سے آڈٹ ہونا چاہئے اور تمام وفاقی اور صوبائی وزارتوں کے مالیاتی امور پر چیک اینڈ بیلنس کی ضرورت ہے ۔سابق چیئرمین ایف بی آر عبداﷲ یوسف نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں انکم ٹیکس کا نظام آسان اور سادہ بنانے کی ضرورت ہے اور ایسی ٹیکس پالیسیاں بنائی جائیں جس سے براہ راست ٹیکسوں میں اضافہ اور ان ڈائریکٹ ٹیکسوں میں کمی ہو جس سے عوام پر بوجھ کم پڑے گا۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت ملک میں سب سے کم ٹیکس زرعی شعبہ دے رہا ہے جس کا جی ڈی پی میں حصہ 21فیصد اور ٹیکسوں میں حصہ صرف ایک فیصد ہے ۔

متعلقہ عنوان :