ماحولیاتی تغیرات کی وجہ سے مون سون کی بارشوں ، سمندری طوفانوں اور سیلابوں میں تیزی آ رہی ہے،اس وجہ سے کئی صوبے متاثرہوئے ہیں ، سمندری پانی کی ساحلی علاقوں میں دخول کی روک تھام کے حوالے سے ویژن 2025میں کوئی پروگرام شامل نہیں ، اس کی روک تھام کیلئے اقدامات کئے جا رہے ہیں،سینیٹ کمیٹی برائے منصوبہ بندی ،ترقیات اور اصلاحات کوپلاننگ ڈویژن کے حکام کی بریفنگ

ساحلی سروے کے سلسلے میں اگلے ہفتے چین کا ایک وفد پاکستان دورہ کر رہا ہے ، پاکستان نیوی انکی مدد کریگی، پاک بحریہ سندھ میں 350 کلو میٹر اور بلوچستان میں 750 کلو میٹر زمین سمندر برد ہو چکی ہے ،یہ ایک بڑا سانحہ ہے ، 2070میں سندھ کے بڑے بڑے شہر پانی میں ڈوب جائیں گے، چیئرمین کمیٹی کے ریمارکس

پیر 12 اکتوبر 2015 22:40

ماحولیاتی تغیرات کی وجہ سے مون سون کی بارشوں ، سمندری طوفانوں اور سیلابوں ..

اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 12 اکتوبر۔2015ء ) سینیٹ کمیٹی برائے منصوبہ بندی ،ترقیات اور اصلاحات کو بتایا گیا کہ اقوام متحدہ کے پروگرام یواین ای پی اور اس کے علاقائی سمندروں کے پروگرام او سی اے ، پی اے سی نے 1989میں پاکستان کو ان ممالک مین شامل کیا ہے جن میں سمندر کی سطح بلند ہونے کے اثرات اثر انداز ہوں ،ماحولیاتی تغیرات کی وجہ سے مون سون کی بارشوں ، سمندری طوفانوں اور سیلابوں میں تیزی آ رہی ہے ۔

جس کی وجہ سے پاکستان کے کئی صوبے سیلاب کی وجہ سے متاثرہوئے ہیں ۔ سندھ کے ساحلی علاقے خاص طور پر ٹھٹھہ اور بدین کی ساحلی پٹی ، ماحولیاتی متاثرہوئی ہے ۔ این آئی او کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سمندر کی سطح 1.3ملی میٹر بلند ہو رہی ہے اور تقریباً80کلو میٹر سمندری پانی اوپر آ چکا ہے ، سمندری پانی کی ساحلی علاقوں میں دخول کی روک تھام کے حوالے سے ویژن 2025میں کوئی پروگرام نہیں شامل کیا گیا مگر اس کے باوجود اس کی روک تھام کیلئے اقدامات کئے جا رہے ہیں ، پاک بحریہ کے حکام نے بتایا کہ پاکستان نیوی کا ایک ادارہ ساحلی علاقوں کا مطالعہ کرتاہے ، ساحلی سروے کے سلسلے میں اگلے ہفتے چین کا ایک وفد پاکستان کا دورہ کر رہا ہے اور پاکستان نیوی انکی مدد کریگی ۔

(جاری ہے)

پیر کوسینیٹ کمیٹی برائے منصوبہ بندی ،ترقیات اور اصلاحات کا اجلاس سینیٹر ڈاکٹر کریم احمد خواجہ کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاوس میں منعقد ہوا ۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں وزارت منصوبہ بندی ، ترقیات و اصلاحات کی طرف سے بلوچستان اور سندھ کے ساحلی علاقوں کی سیکیورٹی کی صوتحال کو بہتر بنانے کیلئے کئے گئے اقدامات اور ویژن 2025کے حوالے سے کراچی اور بدین کے علاقوں میں سمندری پانی کے دخول اور اس اثرات اور روک تھام کے حوالے سے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔

قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ اقوام متحدہ کے پروگرام یواین ای پی اور اس کے علاقائی سمندروں کے پروگرام او سی اے ، پی اے سی نے 1989میں پاکستان کو ان ممالک مین شامل کیا ہے جن میں سمندر کی سطح بلند ہونے کے اثرات اثر انداز ہوں کے ۔ماحولیاتی تغیرات کی وجہ سے مون سون کی بارشوں ، سمندری طوفانوں اور سیلابوں میں تیزی آ رہی ہے ۔جس کی وجہ سے پاکستان کے کئی صوبے سیلاب کی وجہ سے متاثرہوئے ہیں ۔

سندھ کے ساحلی علاقے خاص طور پر ٹھٹھہ اور بدین کی ساحلی پٹی ، ماحولیاتی متاثرہوئی ہے ۔ این آئی او کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سمندر کی سطح 1.3ملی میٹر بلند ہو رہی ہے اور تقریباً80کلو میٹر سمندری پانی اوپر آ چکا ہے جس پر سینیٹر کریم احمد خواجہ نے کہا کہ سندھ میں 350 کلو میٹر اور بلوچستان میں 750 کلو میٹر زمین سمندر برد ہو چکی ہے ۔یہ ایک بڑا سانحہ ہے اور 2070میں سندھ کے بڑے بڑے شہر پانی میں ڈوب جائیں گے انکے سوال کے جواب میں پلاننگ ڈویژن کے جوائنٹ چیف اکانومسٹ نے بتایا کہ سمندری پانی کی ساحلی علاقوں میں دخول کی روک تھام کے حوالے سے ویژن 2025میں کوئی پروگرام نہیں شامل کیا گیا مگر اس کے باوجود اس کی روک تھام کیلئے اقدامات کئے جا رہے ہیں۔

نیوی کے حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ پاکستان نیوی میں ایک ادارہ ہے جس کا کام ساحلی علاقوں کا مطالعہ ہے ۔ جس نے پاکستان کے انڈیا ء اور ایران کے ساتھ ساحلی علاقوں کا باربار سروے بھی کیا گیا اور ان مسائل کی روک تھام کیلئے دوسرے محکموں سے بھی مدد لی جا رہی ہے ۔انہوں نے کہا کہ اگلے ہفتے چین کا ایک وفد پاکستان کا اس حوالے سے دورہ کر رہا ہے اور پاکستان نیوی انکی مدد کریگی ۔

قائمہ کمیٹی کو 1979اور 2015کے ساحلی علاقوں کا موازنہ بھی تصویروں کے ذریعے دکھایا گیا۔محسن خان لغاری نے کہا کہ پاکستان میں کاشتکاری کیلئے جو پانی استعمال ہوتا ہے اسکے موثر استعمال کے علم کی کمی ہے پانی کی کمی کو لیزر لیول کے ذریعے پورا کیا جا سکتا ہے ۔سینیٹر مختار احمد دھامرا نے کہا کہ سطح سمندر میں اضافہ کسی صوبے کا مسئلہ نہیں پاکستان کے مستقبل کا مسئلہ ہے اب تک لاکھوں ایکٹر اراضی سمندر بر د ہو چکی ہے ۔

یہ لوگوں کی زندگی موت کا مسئلہ بنتا جا رہا ہے ۔ دریاؤں کا پانی جب تک مقررہ مقدار میں سمندر میں نہیں جائیگا یہ مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ اب تک 24لاکھ ایکٹر زمین سمندر برد ہو چکی ہے اس کو روکنے کیلئے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے سندھ حکومت 9سیفن بنا رہی ہے اور اب تک دو سیفن بن چکے ہیں واٹر سیکٹر کیلئے آٹھ ارب روپے رکھے ہیں اور پورے منصوبے کیلئے 50ارب روپے کی ضرورت ہے سیفن کی تعمیر کیلئے وفاقی حکومت کی مدد کی ضرور ت ہے ۔

رکن کمیٹی سراج الحق نے کہا کہ سندھ حکومت کی ڈویلپمنٹ کا بجٹ بہت کم ہے اور یہ مسئلہ بہت بڑا ہے اس کے حل کیلے ملکی و بین الاقوامی اداروں کی مدد کی ضرور ت ہے اور آئندہ بجٹ میں سینیٹ کی کمیٹی حکومت سے سفارش کرے کہ اس حوالے سے مناسب بجٹ رکھا جائے ۔انہوں نے کہا کہ سمندر کے قریب جنگلات لگانے سے بھی اس مسئلے کے پھیلاؤ کو روکا جا سکتا ہے۔ قائمہ کمیٹی نے متفقہ طور پر صوبہ سندھ اور بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سینیٹر ز پرمشتمل ایک ذیلی کمیٹی بھی تشکیل دی جو ان معاملات پر ایک رپورٹ بنا کر پیش کریگی ۔

اراکین کمیٹی نے ویژن 2025میں ساحلی علاقوں میں سمندری پانی کے دخول کو روکنے کے حوالے سے پروگرام شامل نہ ہونے پر حیرت کا اظہار کیا۔ قائمہ کمیٹی کے آج کے اجلاس میں سینیٹرز سراج الحق، محمد عثمان خان کاکٹر، آغا شہباز خان دورانی، محمد محسن خان لغاری ، کریم احمد خواجہ، سسی پلیجو، مختار احمد دھامرااور سینیٹر تاج حیدر کے علاوہ جوائنٹ چیف اکانومسٹ پلاننگ ڈویژن ، کمانڈر پاکستان نیوی ، ڈی جی این آئی او، ڈپٹی چیف میری ٹائن کے علاوہ دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔