سینٹ کے ارکان کی 12 اکتوبر 1999ء کو پرویز مشرف کی طرف سے جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے کی مذمت

پیر 12 اکتوبر 2015 19:00

اسلام آباد ۔12 اکتوبر (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 12 اکتوبر۔2015ء) سینٹ کے ارکان نے 12 اکتوبر 1999ء کو آمر پرویز مشرف کی طرف سے جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں بدامنی‘ بدانتظامی‘ دہشتگردی اور انتہا پسندی مارشل لاء دور کی پالیسیوں کا نتیجہ ہے‘ تمام سیاسی جماعتوں کو متحد ہو کر آئین‘ قانون اور پارلیمنٹ کی بالادستی کیلئے کام کرنا چاہیے‘ سیاستدان اپنے آپ کو قانون کے تابع کریں گے تو ہر شہری قانون کی پاسداری کرے گا‘ احتساب کسی کی تذلیل اور رسوائی کے لئے نہیں بلکہ ملکی مفاد میں ہونا چاہیے۔

پیر کو ایوان بالا میں ملکی سیاسی صورتحال پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ 12 اکتوبر 1999ء کو پرویز مشرف نے ایک جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کرلیا تھا لیکن آج تک وہ آزاد ہے‘ ہر چیز ناقابل قبول ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ مارشل لاء کی وجہ سے ہی ملک دولخت ہوا تھا‘ بدامنی‘ بدانتظامی‘ دہشت گردی اور انتہا پسندی مارشل لاء دور کی پالیسیوں کا نتیجہ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ سیاستدان ناکام ہوگئے ہیں‘ حالانکہ سیاستدانوں‘ جمہوریت اور جمہوری اداروں کے خلاف سازشیں کی جارہی ہیں۔ سب کا احتساب ہونا چاہیے لیکن احتساب آئین کے دائرہ کار میں رہ کر ہونا چاہیے۔ سب اداروں کو آئین کے اندر رہنا چاہیے۔ سینٹ کوقومی اسمبلی کے برابر اختیارات ملنے چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ تمام سیاسی جماعتوں کو متحد ہو کر آئین‘ قانون اور پارلیمنٹ کی بالادستی کو مضبوط بنانا چاہیے۔

سینیٹر سعید غنی نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو انتخابی ضابطہ اخلاق پر عمل کرانا پڑے گا ورنہ کسی بھی الیکشن سے سیاسی جماعتیں مطمئن نہیں ہوں گی۔ سینیٹر اعظم سواتی نے کہا کہ ملک اس وقت حالت جنگ میں ہے اس لئے ہر شعبے میں جامع اصلاحات کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ احتساب کے لئے اداروں کو مضبوط بنانا ہوگا۔ ہم اپنے آپ کو قانون کے تابع کریں گے تو ہر شہری قانون کی پاسداری کرے گا۔

سینیٹر سردار اعظم خان نے کہا کہ سیاست برائے خدمت اور سیاست برائے تجارت میں بہت فرق ہے۔ سیاست کو تجارت کیلئے استعمال کرنے والوں کی حوصلہ شکنی کرنا ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ احتساب کا حق آئینی اداروں کو ہونا چاہیے اور پارلیمنٹ کی بالادستی ہونی چاہیے۔ سینیٹر چوہدری تنویر خان نے کہا کہ 12 اکتوبر کا دن پاکستان کی تاریخ کا ایک سیاہ اور تاریک دن ہے‘ ایک آمر نے آئین‘ قانون اور انسانی حقوق کو روندا۔

انہوں نے کہا کہ جمہوریت کے استحکام کے لئے تمام سیاسی جماعتوں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ اس وقت تمام ادارے آئین کے دائرے میں رہ کر کام کر رہے ہیں۔ احتساب تمام اداروں کا ہونا چاہیے۔ لیفٹیننٹ جنرل (ر) صلاح الدین ترمذی نے کہا کہ تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے کردار پر نظرثانی کرنی چاہیے۔ پرویز مشرف نے اس ملک کو بہت نقصان پہنچایا ہمیں خود احتساب کی راہ بھی اپنانی چاہیے‘ اس سے ہی ملک ترقی کرے گا۔

سینیٹر شاہی سید نے کہا کہ ملک اس وقت حالت جنگ میں ہے‘ جنرل راحیل شریف نے پاک فوج کی عزت و توقیر میں اضافہ کیا ہے جس پر وہ خراج تحسین کے مستحق ہیں۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو انتخابی اخراجات پر کنٹرول کرنے کے لئے سخت اقدامات کرنا ہوں گے۔ سیاسی جماعتوں کو الزامات کی سیاست سے باہر آنا چاہیے۔ احتساب کسی کی تذلیل اور رسوائی کے لئے نہیں بلکہ ملکی مفاد میں ہونا چاہیے۔

سینیٹر نہال ہاشمی نے کہا کہ بارہ اکتوبر کو ایک آمر نے صرف محمد نواز شریف کی حکومت کو ہی ختم نہیں کیا بلکہ ہر ملک کے خلاف اقدام تھا۔ اس اقدام کے نتیجے میں ترقی کا عمل رک گیا اور ملک بہت پیچھے چلا گیا۔ انہوں نے کہا کہ پرویز مشرف ایک ٹیلی فون پر ڈھیر ہوگیا اور پاکستان کی اینٹ سے اینٹ بجوا دی۔ 12 اکتوبر کو جمہوری حکومت ختم نہ کی جاتی تو بجلی کا بحران کب کا ختم ہو چکا ہوتا۔

امن و امان کی صورتحال بہتر ہوتی اور صوبوں کے درمیان ہم آہنگی اور بھائی چارے کی فضا برقرار رہتی۔ سینیٹر مشاہد اللہ نے کہا کہ بے نظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات نہ ہوئیں جس پر الزام لگا اس نے تردید کی۔ انہوں نے کہا کہ مجھے خدشہ ہے کہ بے نظیر کے قتل میں بیرون ممالک بھی ملوث اور یہاں ان کے اہلکار بھی ملوث ہیں‘ یہاں ان کے اہلکاروں کو تو پکڑیں۔

انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کو اپنی شکست کے اصل اسباب پر غور کرنا ہوگا۔ آپ اپنا احتساب کریں۔ میری خواہش ہے کہ پیپلز پارٹی نہ صرف باقی رہے بلکہ ترقی کرے۔ یہ فیڈریشن کی پارٹی ہے‘ آپ قوم سے معافی مانیگں لوگ آپ کو معاف کردیں گے۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی والے بار بار ہارنا پسند کرتے ہیں۔ پہلے 2013ء میں ہارے اور اب پھر انتخابات کو چیلنج کرنے جارہے ہیں۔

متعلقہ عنوان :