ڈینگی سے بچاو کی قانون سازی کے لئے ہاوس ہولڈ پیسٹیسائیڈ ایکٹ 2015کا ڈرافٹ حکومت کو پیش کر دیا گیا ہے،سجاد ھیدر دارا

پیر 12 اکتوبر 2015 18:51

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 12 اکتوبر۔2015ء) ڈینگی سے بچاو کے لئے گھروں، بازاروں،محلّوں، دفاترز،مویشی کے باڑوں،مرغی خانوں اور کھیتوں سے مچھر،مکھیوں اور دیگر اقسام کے کیڑے مکوڑوں کے خاتمہ اور صفائی کے بہتر انتظامات کے سلسلے میں قانون سازی کرنے کے لئے ہاوس ہولڈ پیسٹیسائیڈ ایکٹ۔2015 کا ڈرافٹ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو پیش کردیا گیا ہے اور ساتھ ہی حکومت پر زور دیا گیا ہے کہ ملک بھر میں پیسٹیسائیڈ فروخت کرنے والے اداروں کی رجسٹریشن کی جائے اور انکے کاروبار کی نگرانی کے لئے ریگولیٹری اتھارٹی بنائی جائے کیونکہ زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں یہ لوگ کھیتوں میں کیڑے مکوڑے مارنے والی ادویات جو کہ گھروں میں مچھر، مکھی،لال بیگ اور دیگر مکوڑوں کے خاتمے کے لئے استعمال کی جانے والی ادویات کے مقابلہ میں دو سو فیصد سستی ہوتی ہیں گھریلو صارفین کو فروخت کی جارہی ہیں اور اس کو چیک کرنے کے لئے کوئی ادارہ موجود نہیں ہے۔

(جاری ہے)

یہ بات فلورا پرائیویٹ لمیٹڈ کے سی ای اوسجاد حیدر دارانے گزشتہ شام محمد علی جناح یونیورسٹی کراچی کے پروگرام کامیابی کی داستانیں سے خطاب کے دوران بتائیں جنہوں نے تین سال قبل پنجاب میں ڈینگی کے خاتمہ کے لئے وہاں کی صوبائی حکومت کے ساتھ کام کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ڈینگی کی بیماری کا مقابلہ کرنے کے لئے عوام میں شعور پیدا کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ڈینگی پھیلانے والا مچھر کھڑے پانی میں پیدا ہوتاہے،یہ مچھر ایک چمچ پانی میں بھی پیدا ہوسکتا ہے اس لئے لوگوں کو چاہیے کہ وہ اپنے گھروں میں پرندوں کو پانی پلانے کے لئے رکھے جانے والے برتنوں کا پانی تبدیل کرتے رہیں ،چھت پر رکھے فالتو سامان میں بارش کا پانی جمع نہ ہونے دیں، ایرکنڈیشنڈ سے گرنے والے پانی کو جمع نہ ہونے دیں اور گھر کو صاف ستھرا رکھیں، انہوں نے بتایا کہ ڈینگی پھیلانے والا مچھر عام طور پر گھر سے باہر کی گندگی میں پیدا ہوتا ہے اور گھر میں داخل ہوکر مسہری کے نیچے قیام کرتا ہے،ڈینگی کی بیماری مادہ مچھر کے کاٹنے سے پیدا ہوتی ہے، بخار شروع ہونے کی صورت میں اینٹی بائیوٹک ادویات کے بجائے صرف پیرا سیٹامول یا پیناڈول کی گولیاں استعمال کریں اور ڈینگی کا شکار ہوجانے کے بعد صرف اس ڈاکٹر سے علاج کرایا جائے جس نے ڈینگی کی بیماری کا شکار ہونے والے مریضوں کے علاج کرنے کا کورس کیا ہوا ہو۔

سجاد حیدر دارا نے کہا کہ پنجاب حکومت ابھی تک ڈینگی کنٹرول کرنے کے بیس فیصد اقدامات کرچکی ہے جبکہ سندھ میں اس مرض سے نمٹنے کے لئے کوئی موثر کاروائی نہیں کی جاسکی ہے ، کراچی کے چند اسپتالوں میں ڈینگی کی بیماری کے مریضوں کے علاج کے لئے علیحیدہ شعبہ بنائے گئے ہیں جبکہ اس مریضوں کے علاج کے لئے ڈاکٹروں کو کورسز کرنے پر بھی توجہ نہیں دی جارہی ہے۔انہوں نے بتایا کی ٹائر پنکچر لگانے کی دکانوں میں ٹب میں بھرا پانی روز آنہ تبدیل کرنا چاہیے اس میں بھی ڈینگی پھیلانے والا مچھر پیدا ہو سکتا ہے اس ضمن میں پنجاب کی حکومت نے صرف لاہور شہر میں پانچ ہزار ٹائیر پنکچر شاپس کی رجسٹریشن کرکے انھیں روزآنہ پانی تبدیل کرنے کی ہدایت جاری کی ہے ۔

متعلقہ عنوان :