مسئلہ کشمیر پرپرویز مشرف اور من موہن سنگھ کی حکومتوں کے درمیان خفیہ مذاکرات بارے مزید تفصیلات سامنے آگئیں

سابق بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ کی جانب سے خفیہ معاہدے کا مسودہ نریندر مودی کے حوالے کیے جانے کا انکشاف مقبوضہ و آزاد جموں وکشمیر کی حکومتوں نے پاکستان اور بھارت کی حکومتوں کے ساتھ مل کر مسئلہ کے حل کیلئے مشاورتی میکانزم تیار کیا ،اس میں دہشتگردی ،مذہبی آزادی،ثقافت اور تجارت سمیت علاقائی سماجی اور اقتصادی مسائل کے حل کا مینڈیٹ شامل تھا،مسودے پر دونوں ممالک کے درمیان دبئی اور کھٹمنڈو میں 30 خفیہ اجلاس ہوئے، 200 سے زائد گھنٹوں تک بحث کی گئی،سینئر بھارتی سفارتکار کادعویٰ

جمعہ 9 اکتوبر 2015 20:54

مسئلہ کشمیر پرپرویز مشرف اور من موہن سنگھ کی حکومتوں کے درمیان خفیہ ..

نئی دہلی (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 09 اکتوبر۔2015ء ) سابق بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ کی جانب سے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے سابق پاکستانی صدر پرویز مشرف کے ساتھ ہونے والے خفیہ معاہدے کا مسودہ وزیراعظم نریندر مودی کے حوالے کرنے کا انکشاف ہوا ہے جس کے مطابق مقبوضہ و آزاد جموں وکشمیر کی حکومتوں نے پاکستان اور بھارت کی حکومتوں کے ساتھ مل کر مسئلہ کے حل کیلئے ایک مشاورتی میکانزم تیار کیا تھا جس میں دہشتگردی ،مذہبی آزادی،ثقافت اور تجارت سمیت علاقائی سماجی اور اقتصادی مسائل کے حل کا مینڈیٹ شامل تھا۔

معاہدے کے مسودے پر دونوں ممالک کے خفیہ مذاکرات کے درمیان دبئی اور کھٹمنڈو میں 30 اجلاس ہوئے جس میں 200 سے زائد گھنٹوں تک بحث کی گئی ۔جمعہ کو بھارتی میڈیا کے مطابق ایک سینئر بھارتی سفارتکار نے انکشاف کیا ہے کہ سابق بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ نے مسئلہ کشمیر پرسابق پاکستانی صدر پرویز مشرف کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کے حوالے سے ایک خفیہ فائل وزیراعظم نریندر مودی کے حوالے کردی ہے ۔

(جاری ہے)

انڈین ایکسپریس کے مطابق سفارتکارکا کہنا ہے کہ من موہن سنگھ اور پرویز مشرف نے خفیہ مذاکرات کے دوران جموں و کشمیر کے حوالے سے فریم ورک معاہدے کا ایک ڈرافٹ تیار کیا تھا۔سفارتکار کا کہنا ہے کہ بغیر دستخط شدہ دستاویزات پر مبنی فائل کا تبادلہ 27 مئی 2014 کی میٹنگ کے دوران ہوا تھا۔بھارتی سفارتکار نے نے مزید انکشاف کرتے ہوئے بتایا کہ فریم ورک معاہدے کے حتمی مسودے جسے ’’مشاورتی میکانزم ‘‘کہا جاسکتا ہے کو مقبوضہ جموں وکشمیر اور آزاد کشمیر کی حکومتوں کے منتخب نمائندوں نے دونوں ممالک کی قومی حکومتوں کے ساتھ مل کر تیار کیا تھا۔

مشاورتی میکانزم میں دہشتگردی ،مذہبی آزادی،ثقافت اور تجارت سمیتعلاقائی سماجی اور اقتصادی مسائل کے حل کا مینڈیٹ دیا گیا تھا۔بھارتی سفیر ستندر لامبا اور پرویز مشرف کے نمائندوں ریاض محمد خان اور طارق عزیز نے دبئی اور کھٹمنڈو میں معاہدے کے مسودے پر ہونے والے 30 اجلاسوں کے دوران 200 سے زائد گھنٹوں تک بحث کی ۔ایک سابق انٹیلی جنس افسر نے انکشاف کیا ہے کہ جب مذاکرات اہم مرحلے میں داخل ہوگئے تھے اس وقت بھارتی سفیر لامبا نے بغیر پاسپورٹ اور ویزا کے راولپنڈی گئے تھے تاکہ مذاکرات خفیہ رہ سکیں ۔

بھارتی سفیر کا کہنا تھاکہ مذاکرات کے ابتدائی مرحلے میں پاکستان نے عوام کے سامنے ن کو لائن آف کنٹرول کے عالمی مبصروں کے طور پر ظاہر کیا تھا۔ اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ سابق پاکستانی صدر پرویز مشرف اور بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ ایک معاہدے پر پہنچنے کے خواہاں تھے تاکہ وہ کشمیر کے تنازعے پر اپنی توانائیاں صرف کیے بغیر اپنے ایجنڈے پر توجہ مرکوز کرسکیں۔