پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے پر آئی ایم ایف کے بیان پر سخت تحفظات ہیں ،حکومت نے آئی ایم ایف بارے محتاط رویہ اختیار نہ کیاتو یہ ملک کی تعمیر وترقی پر اثر انداز ہو گا

انسٹی ٹیوٹ فار پالیسی ریفارمزکے منیجنگ ڈائریکٹر ڈاکٹر حفیظ پاشاکا حقائق نامہ جاری کرتے ہوئے اظہار خیال

جمعہ 9 اکتوبر 2015 18:41

اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 09 اکتوبر۔2015ء ) تھنک ٹینک انسٹی ٹیوٹ فار پالیسی ریفارمزنے پا ک چائنہ راہداری منصوبے کے بارے میں آئی ایم ایف کے بیانات پرایک حقائق نامہ جار ی کیا ہے جس میں منیجنگ ڈائریکٹر آئی پی آر ڈاکٹر حفیظ پاشا نے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاک چائنہ راہداری منصوبہ پاکستان کیلئے ایک اہم گیم چینجر ہے لہذا حکومت کو چاہیے کہ وہ اس منصوبے کی تکمیل کیلئے آئی ایم ایف کی طرف سے کسی قسم کا دباؤ قبول نہ کرے اور نہ ہی اس منصوبے کے سائز وغیر ہ میں تبدیلی کرے ۔

جمعہ کوآئی پی آر کے حقائق نامہ میں آئی ایم ایف کی سٹاف رپورٹ پر رد عمل ظاہر کیا گیا ہے جس کے مطابق آئی ایم ایف نے پاک چائنہ راہداری منصوبے کے بارے میں ان اعدادو شمار کا ذکر کیا ہے جو کہ حکومت نے فراہم کیے ہیں۔

(جاری ہے)

آئی ایم ایف نے بتایا ہے کہ کل سرمایہ کاری کے تحت پاک چائنہ راہداری منصوبے پرپینتالیس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی جائے گی جس میں توانائی کے منصوبوں کیلئے تینتیس اعشاریہ آٹھ(33.8) بلین ڈالر جو کے کل سرمایہ کاری کا تقریبا ً 75 فیصد بنتا ہے جبکہ بقیہ دس ا عشاریہ چھ(10.6) بلین ڈالر آمدروفت اور سڑکوں وغیرہ کی تعمیرات پر خرچ ہو نگے ۔

حکومت کی خواہش ہے کہ آمدروفت کے منصوبے 2017-18میں مکمل ہو جائیں نیز توانائی کے منصوبے جس کے تحت آئی پی پیز کے ذریعے تقریباً دس ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کے ارادہ ہے وہ بھی 2017-18تک مکمل ہو جائیں۔آئی پی آر نے پاک چائنہ راہداری منصوبے پر آئی ایم ایف کے اس بیان پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے جس میں اس نے کہا ہے کہ پاک چائنہ راہداری منصوبے میں ٹرانسپورٹ انفراسٹر یکچر منصوبے پبلک سیکٹر پروگرام سے مکمل کیے جائیں ۔

اس کے علاوہ آئی پی آر نے وزرات خزانہ پر زور دیا ہے کہ آئی ایم ایف مشن سے آئندہ ہونیوالی ملاقات میں اس چیز پر زور دے کہ درمیانے درجے کا میکرو اکنامک فریم ورک ناکافی ہے نیز حکومت کو بھی 2016-17میں متوقع سرمایہ کاری کے منصوبوں کو جی ڈی پی کے تین اعشاریہ چار فیصد سے بڑھا کر چار اعشاریہ چھ فیصد کرنا ہو گا اور 2017-18میں اس کو مزید بڑھا کر جی ڈی پی کے پانچ اعشاریہ تین فیصدتک لیجا نا ہو گا ۔

جبکہ حکومت کو اس سلسلے میں سست روی سے کام نہیں لینا چاہیے کیونکہ آئی ایم ایف کا پروگرام 2016 ستمبر میں ختم ہو رہا ہے لہذا حکومت کو چاہیے کہ ان متعلقہ منصوبوں پر جلد نظر ثانی کرے۔فیکٹ شیٹ کے آخر میں آئی پی آر نے حکومت سے گزارش کی ہے کہ وہ آئی ایم ایف کے بارے میں محتاط رویہ اختیارکیا جائے کیونکہ آئی ایم ایف کی ہدایات ملک کی تعمیر و ترقی پر اثر انداز ہو سکتی ہیں۔

متعلقہ عنوان :