لائسنس معطلی کیس، بیرسٹر علی ظفر نے ذ اتی حیثیت سے معافی کی بجائے دفترکی جانب سے معافی مانگ لی

معافی مانگنے پرعدالت نے علی ظفر اورراجاظفرخالق کے لائسنس بحال کردئیے بنچ اوربار باہمی احترام کوملحوظ رکھیں ،جب پتہ چل گیاتھا لکھے گئے خط کے مندرجات مناسب نہیں تواس پر خط واپس بھی لیاجاسکتاتھا،چیف جسٹس کے ریمارکس

جمعہ 9 اکتوبر 2015 18:07

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 09 اکتوبر۔2015ء) سپریم کورٹ میں سینئر قانون دان بیرسٹر علی ظفر لائسنس معطلی کیس،علی ظفر نے ذاتی حیثیت سے معافی کی بجائے دفترکی جانب سے معافی مانگ لی ،معافی مانگنے پرعدالت نے علی ظفر اورراجاظفرخالق کے لائسنس بحال کردئیے ،عدالت نے علی ظفر کودفتر کی جانب سے معافی مانگنے یامیرٹ پر مقدمہ لڑنے کے دوآپشن دئیے تھے ،چیف جسٹس پاکستان انور ظہیر جمالی نے کہاہے کہ بنچ اوربار باہمی احترام کوملحوظ رکھیں ،جب پتہ چل گیاتھاکہ لکھے گئے خط کے مندرجات مناسب نہیں ہیں تواس پر خط واپس بھی لیاجاسکتاتھا،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہاہے کہ ہماری ذات سے مقدم ادارے کااحترام ہے ،معاملہ انفرادی وکلاء کاتھااس میں بار کوبنچ کے روبرولانے کی کیوں کوشش کی گئی ،جبکہ جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہاہے کہ اچھے اورباوقار وکلاء کبھی بھی بنچ سے ٹکرانے کی کوشش نہیں کرتے ،خط آپ کے آفس سے بھجوایاگیاتھاآپ کواپنے دفتر کی جانب سے پہلے ہی معافی مانگ لینی چاہیے تھی ،ہم چاہتے ہیں بنچ اوربار کاباہمی احترام کارشتہ برقراررہے ،جبکہ عاصمہ جہانگیر نے دلائل میں موقف اختیار کرتے ہوئے کہاکہ ہم کالاکوٹ پہنتے ہیں ہمارابھی کوئی احترام ہے ہمارے ساتھ اس طرح کاسلوک نہ کیاجائے ،معزز بار کے ایک ممبرکے ساتھ نارواسلوک سب ممبران کے ساتھ سمجھاجاتاہے ،علی ظفر باربارتسلیم کرچکے ہیں کہ خط انھوں نے نہیں لکھاان کے ساتھی ان کی ماتحتی میں کام نہیں کررہے ہیں وہ بھی سپریم کورٹ کے وکیل ہیں اورراجاظفر خالق خط لکھنے سمیت تمام معاملات کوتسلیم کرچکے ہیں اورمعافی بھی مانگ چکے ہیں ،جبکہ علی ظفر نے کہاہے کہ انھوں نے جب کچھ نہیں کیاتومعافی کس بات کی مانگیں ہاں اگر کچھ کیاہوتاتوسوبارمعافی مانگ لیتے ۔

(جاری ہے)

ان کالیٹرہیڈ استعمال ہوااورجوخط لکھاگیااس پر اپنے دفتر کی جانب سے معافی مانگنے کے لیے تیارہیں ،جس وقت یہ خط لکھاگیاتووہ اس وقت ملک سے باہر تھے جب واپس آئے توانھون نے فوری طورپر اپنے ساتھی سے کہاکہ وہ بیان حلفی لکھ کرعدالت میں جمع کروائے ۔انھوں نے یہ دلائل جمعہ کے روزچیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں پانچ رکنی خصوصی بنچ کے روبرودیے ہیں انھوں نے مزید کہاکہ انھوں نے 9 اپریل کو وضاحت جمع کرائی تب میں نے اس خط بارے تمام تر معلومات بارے انکار کیا۔

شوکاز نوٹس کا جواب دیا۔ اس کے باوجود یہ تاثر سمجھا گیا کہ میں نے یہ خط ڈرافٹ کیا تھا۔ جس نے یہ ڈرافٹ کیا کیا اس کی تصدیق کی گئی یا نہیں جب لکھنے والے نے بھی اس کا اعتراف کر لیا۔ یہ فرض کر کے مجھے چارج کیا گیا۔ مس کنڈکٹ کا الزام لگایا جب نکات یہ کہتے ہیں کہ میں نے یہ تحریر نہیں کیا قانونی شہادت میں اس بات کا بہت عمل دخل ہے۔ دوسری بات یہ فرض کی گئی کہ میں نے کیوں یہ ڈرافٹ کیا بلکہ راجہ ظفر سے ڈرافٹ کرایا۔

میری استدعا یہ ہے کہ اس بات کا کوئی شواہد نہیں ہے کہ میں نے راجہ ظفر کو خط لکھنے کے لئے کہا۔ انہوں نے عدالت کے سامنے اس بات کا اقرار بھی کیا۔ اس کے حوالے سے الگ سے سماعت کی گئی۔ جسٹس میاں ثاقب نے کہا کہ آپ کو کسی نے منع نہیں کیا کھلی عدالت میں آ بھی سکتے تھے۔ آپ کے آفس سے وہ تاحال موجود ہیں اس ادارے کے احترام کے لئے آپ کو اپنے ساتھی کے خلاف کارروائی کرنا چاہئے تھی اس کے وقار سے آپ کا بھی وجود ہے۔

آپ نے ابیوز کیا۔ سچے وکلاء کبھی بھی بنچ سے نہیں ٹکراتے‘ بار اور بنچ دونوں کا احترام ہے۔ دونوں کا کردار بھی برابر ہے قانونی شہادت کا اس میں کوئی تصور نہیں۔ آپ کی جانب سے لکھا گیا خط کیا اس ادارے کے لئے اچھا ہوتا۔ آپ کی جگہ کیا ان کو سزا دی جائے۔ آپ بار کونسل بھجوانا چاہتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جب خط ہی آپکے دفتر سے بھجوایا گیا آپ کو چاہئے تھا کہ یہ خط واپس لیتے اور معافی کے خواستگار ہوتے علی ظفر نے کہا کہ انہوں نے معافی مانگی تھی۔

جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ آپ کے دفتر سے خط لکھا گیا آپ کے دفتر نے اس خط کا تحریری انکار بھی نہیں کیا۔ جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ آپ خود تسلیم کرتے ہیں کہ خط کے مندرجات ادارے کے لئے اچھے نہ تھے اپنی آرگنائزیشن کے ہیڈ کے ناطے تو آپ کو معافی مانگنی چاہئے تھی۔ اب بھی آپ نے ایسا نہیں کیا۔ اب بھی آپ یہ ذمہ داری محسوس کر سکتے تھے۔ یہاں معاملہ بنچ اور بار کی عزت اور برابری کا ہے اس لئے ہم اس کو سن رہے ہیں وگرنہ نظرثانی کا دائرہ کار محدود ہے۔

عاصمہ جہانگیرنے کہا کہ سماعت کے دوران ناخوشگوار صورتحال بھی درپیش آئی۔ ہم بنچ کا احترام کرتے ہیں اور یہی بنچ سے بھی توقع رکھتے ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میں نے علی ظفر کو بار بار کہا۔ عاصمہ نے کہا کہ آپ نے معافی مانگنے کی بات کی تھی انہوں نے کہا تھا کہ اگر انہوں نے ایسا کیا ہے تو وہ سو بار معافی مانگنے کو تیار ہیں جسٹس میاں ثاقب نے کہا کہ قانونی نکات پر بات ہوئی ہو گی۔

ان کا کہنا یہ ہے کہ یہ فیصلہ فرض کئے گئے معاملات پر ہے جس پر ان کے خلاف فوجداری کارروائی نہیں بنتی۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ آپ ہم سے معافی مانگیں مگر ان کے دفتر سے یہ بات آنی چاہئے تھی۔ جسٹس دوست نے کہا کہ آپ نے لاہور میں کسی بیماری کی وجہ سے التواء مانگی تھی اور پھر آپ باہر چلی گئیں لطیف آفریدی سمیت وکلاء نے معاملے کی سماعت کی بجائے بار کونسل کو ارسال کرنے کا کہا ہم نے علی ظفر کو 3 بار موقع دیا کیا آپ اپنی فرم کے لیٹر ہیڈ پر لکھے گئے خط پر کوئی کارروائی کی ہے جس میں عدالت کے وقار کے منافی بات کی گئی ہے۔

جب آپ واپس آئے تو کچھ بھی واضح نہ تھا۔ جسٹس میاں ثاقب نے کہا کہ ان کی طرف سے نہیں تو آفس کی طرف سے ہی معافی آ سکتی تھی۔ عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ جب تک میں یہاں تھی آفریدی سمیت سب نے کہا تھا کہ ہم معافی نہیں مانگیں گے۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ نے ایسی کوئی بات نہیں کہی تھی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اصل معاملہ دونوں بنچ اور بار کے درمیان مویچل وقار کا ہے۔

یہ معاملہ اس حد تک نہیں جانا چاہئے تھا۔ جسٹس فائز نے کہا کہ اگرچہ کہ معاملہ یہاں تک معاملہ نہ چلا جاتا۔ اگر میڈیا یہ سب شائع نہ کرتا۔ علی ظفر کے لیٹر ہیڈ پر خط بھجوایا گیا یہ ان کا خط ہی تصور کیا گیا۔ عاصمہ نے کہا کہ وہ ملک میں نہ تھے۔ جسٹس میاں ثاقب نے کہا کہ کیا اپ کی طرف سے پیش کی گئی قرارداد نرم نہیں ہو سکتی تھی۔ عاصمہ نے کہا کہ ہماری بے عزتی نہ کریں جسٹس قاضی نے کہا کہ آپ کے الفاظ پر اہتجاج کرتا ہوں آپ اس طرح کے الفاظ استعمال تو نہ کریں۔

بار کو ہمارے خلاف نہ کریں یہ انفرادی معاملہ ہے بنچ اور بار کا معاملہ نہیں ہے بلکہ دو انفرادی وکلاء کا معاملہ ہے۔ عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ ایک ممبر کو کہنے سے سب متاثر ہوتے ہیں مگر وہ سب معاملات کو چھوڑنے کے لئے تیار ہیں ہم چاہتے ہیں کہ ہماری بھی عزت کا خیال رکھا جائے۔ علی ظفر نے کہا کہ میں نے یہ خط نہیں لکھا میں نے اپنی وکالت کی تاریخ میں ایسا خط کبھی نہیں لکھا۔

میرے خاندان کی اس حوالے سے ایک تاریخ بھی ہے۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ بار بار بنچ کے سامنے بار کو کیوں لانے کی کوشش کر رہے ہیں یہ آپ کا اپنا انفرادی مقدمہ ہے اس کا بار سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس معاملے میں دو آپشن ہیں یا تو میرٹ پر فیصلہ کریں اور دوسرا راستہ یہی ہے بنچ اور بار کے درمیان وقار پر سب سوچین اور علی ظفر کے دفتر کی جانب معافی نامہ آ جائے۔

اور غلطی کو تسلیم کیا جائے۔ جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ 1980ء میں میرا ایک مقدمہ میں بیرسٹر اعتزاز احسن نے درخواست دائر کی تھی جس پر جسٹس حلیم چیف جسٹس پاکستان نے فل بنچ بنا کر اس کی سماعت کی تھی۔ اعتزاز احسن کو بلایا گیا۔ میاں محمود علی قصوری بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے اعتزاز کو بٹھا دیا اور کہا کہ یہ مجھے اسسٹ کر رہے تھے درخواست میں مقصد یہ نہیں تھا انہوں نے درخواست نہیں لکھی ان کی بات کو تسلیم کرتے ہیں ان کے علم میں نہیں تھا تو یہ بھی درست ہے جس نے خط لکھا ہے اسے پہلے ہدایات لینی چاہئے تھی آپ کے دفتر سے غفلت ہوئی ہے ذاتی طور پر نہ سہی دفتر کی طرف سے ضرور معافی نامہ آنا چاہئے۔

اس پر آپ کا کیا جواب ہے؟ عاصمہ نے کہا کہ ہمد ونوں آپشن کے لئے تیار ہیں اس کو کبھی بھی اچھا نہیں سمجھا۔ ہم نے اس معاملے کو سنجیدگی سے لیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں۔ یہ واقعہ ہوا اس پر معافی چاہتے ہیں۔ علی ظفر نے کبھی نہیں کہا یہ صحیح ہوا ہے فوری ریسپانس دیا تھا۔ ان کے ساتھی نے ذمہ داری محسوس کی اور بیان حلفی جمع کروایا ان کے دفتر کا حصہ ضرور ہیں مگر ان کے اثر میں نہیں ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ جب محسوس کرتے ہیں کہ غلطی ہو گئی ہے تو خط واپس بھی لیا جا سکتا تھا۔ راجا ظفر خالق کا بھی تو ایک سال کے لئے لائسنس معطل ہوا ہے۔ ایک کہتا ہے کہ میں نے خط نہیں لکھا نکات تک سے انکاری ہے تو پھر اس کو کیوں سزا دی جا رہی ہے۔ چیف جسٹس نے علی ظفر سے کہا کہ جو کچھ عاصمہ نے کہا کہ کیا آپ یہ تسلیم کرتے ہیں علی ظفر نے کہا کہ وہ ہر طرح کی سزا کے لئے تیار ہیں جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ کیا آپ معافی مانگتے ہیں عاصمہ نے کہا کہ آپ یہ چاہتے ہیں کہ ہم ناک رگڑیں تو ہم یہ بھی کر لیتے ہیں ہم بھی انسان ہیں کالا کوٹ پہنتے ہیں ہماری بھی کوئی عزت ہے ہم یہ کرنے کو تیار ہیں۔

آفس کی طرف سے معافی مانگنے کو تیار ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم آپ کی معافی بارے معافی کو تسلیم کرتے ہیں لائسنس بحال کرتے ہیں راجا ظفر خالق نے کہا کہ میں خط کے لئے عدالت سے معافی مانگتا ہوں مجھے معاف کیا جائے۔ جسٹس فائر عیسیٰ نے کہا کہ ہماری ذات کی بات نہیں ادارے کے احترام کی بات ہے۔ اگر آپ کھلے عام معافی مانگ رہے ہیں تو آپ کے ساتھ بھی علی ظفر والا سلوک ہونا چاہئے۔ جسٹس میاں ثاقب نے کہا کہ اس نظام کی بقاء کے لئے آئندہ ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ آپ کا بھی لائسنس بحال کیا جاتا ہے

متعلقہ عنوان :