Live Updates

تحریک انصاف اور متحدہ قومی موومنٹ کے اراکین پارلیمنٹ کے استعفوں کا معاملہ

جمعہ 9 اکتوبر 2015 14:09

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 09 اکتوبر۔2015ء) تحریک انصاف اور متحدہ قومی موومنٹ کے 96 اراکین پارلیمنٹ کے استعفوں کا معاملہ سپریم کورٹ نے وزیراعظم‘ چیئرمین سینٹ‘ سپیکر قومی اسمبلی‘ قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ کو دوبارہ نوٹس جاری کرتے ہوئے ان سے 4 ہفتوں میں جواب طلب کیا ہے۔ ظفر علی شاہ‘ شاہد اورکزئی اور دیگر کی درخواستیں بھی سماعت کے لئے منظور کر لی گئیں۔

اگلی سماعت پر مرکزی مقدمے کے ساتھ لگانے کا حکم بھی دیا ہے۔ عدالت نے چیئرمین سینٹ اور سپیکر قومی اسمبلی سے بھی جواب طلب کیا ہے کہ بتایا جائے کہ مستعفی ارکان کے استعفے منظور کئے گئے یا نہیں یا یہ غیر موثر ہو چکے ہیں۔ دونوں جماعتوں کے ارکان سے جواب طلب کیا گیا ہے۔ جبکہ جسٹس امیر ہانی مسلم نے ریمارکس دیئے ہیں کہ کیا سپریم کورٹ کو سپیکر یا چیئرمین سینٹ کے پاس پروسیڈنگ پینڈنگ ہونے کے باوجود مداخلت کا اختیار ہے یا نہیں‘ اراکین رکن اسمبلی رہے یا نہ رہے اس کا فیصلہ کون کرے گا۔

(جاری ہے)

جبکہ چیف جسٹس نے کہا ہے کہ جب اسپیکر اور چیئرمین سینٹ کے پاس استعفے آگئے تھے وہ رکھ کر کیوں بیٹھے ہیں اس کا فیصلہ کیوں نہیں کرتے۔ اگر یہ استعفے غیر موثر ہو چکے ہیں تب بھی اس کا فیصلہ تو کیا جاتا۔ انہوں نے یہ ریمارکس جمعہ کے روز دیئے ہیں چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے درخواستوں کی سماعت کی ایم کیو ایم اور تحریک انصاف کے اراکین کے استعفوں کے مقدمے میں فریقین کے وکلاء پیش ہوئے۔

درخواست گزار ظفر علی شاہ اور شاہد اورکزئی بھی اس دوران دلائل کے لئے موجود تھے جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ اگر سپیکر کے پاس پروسیڈنگ پینڈنگ ہو تو کیا سپریم کورٹ اس مرحلے پر مداخلت کر سکتی ہے آرٹیکل 69 کیا کہتا ہے۔ ظفر علی شاہ نے کہا کہ سپیکر کا ذاتی کردار اپنی جگہ ہے جگہ ہاؤس کا اپنا معاملہ ہے دونوں میں فرق ہے جسٹس امیر ہانی نے کہا کہ سپیکر ممبر نہیں ہوتے۔

ان کے استعفے کا معاملہ 69 میں کور نہیں ہو جاتا۔ ظفر علی شاہ نے کہا کہ ویسے تو بہت سے مقدمات شامل ہیں مگر موجودہ مقدمہ اپنی نوعیت کا منفرد مقدمہ ہے۔ نواز شریف بنام فیڈریشن کیس بھی آپنے سنا ہے جس میں استعفے پر بحث کی گئی تھی سندھ اور پنجاب کے بھی مقدمے ہیں جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ وہ ایم این ایز ہیں یا نہیں اس کا فیصلہ کون کرے گا۔

ظفر علی شاہ نے کہا کہ 64(1) کے تحت وہ خود جائین گے یا سپیکر بھجوا دے گا۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ جب تک اسپیکر کوئی آرڈر نہ کرے سپریم کورٹ کا اس ہوالے سے کوئی تعلق نہیں بنتا چیئرمین سینٹ کا بھی آرڈر دیکھنا پڑے گا۔ ظفر علی شاہ نے 8 ماہ سے استعفے پینڈنگ رہے سپیکر سوئے رہے دو دن قبل سینٹ چیئرمین نے بھی رولنگ دی ہے۔ انہوں نے ایک کاپی یہاں بھی دی ہے جس کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔

انہوں نے اپنی رولنگ میں لکھا ہے مستقبل بارے کوئی بات نہیں کی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے ابتداء میں کہا تھا کہ استعفے آگئے ہیں سپیکر کوئی تو فیصلہ کرے وہ تو رکھ کر بیٹھے ہیں حامد خان نے کہا کہ ہمیں 19 لوگوں کو نوٹس ملے ہیں یہ عدالت عالیہ اسلام آباد کے فیصلے کے خلاف آئے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ اس حوالے سے اپنا جواب داخل کرا دیں تب ہم کوئی آرڈر جاری کریں گے۔

ابتداء میں درخواست گزاروں نے کہا تھا کہ اسپیکر اسمبلی اور چیئرمین سینٹ کو کہا جائے کہ وہ اپنا قانونی فریضہ ادا کرتے ہوئے استعفے منظور کریں حامد خان نے کہا کہ یہ استعفے کب تک پینڈنگ رکھے جا سکتے ہیں کیا اسپیکر اتنی دیر تک یہ استعفے رکھ سکتا ہے کیا یہ غیر موثر نہیں ہو گئے

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے جواب سے بات واصح ہو جائے گی۔ جو اسپیکر کے فیصلے سے متاثر ہو گا وہ عدالت سے رجوع کر سکتا ہے۔

انہوں نے سپیکر اور چیئرمین سینٹ کے حوالے سے کہا کہ وہ جواب داخل کرائیں۔ اعتزاز احسن نے کہا کہ اس مقدمے سے ہمارا کوئی تعلق نہیں بنتا ظفر علی شاہ نے اس میں مجھے فریق بنا رکھا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ شاہ صاحب نے اس لئے اپ کو فریق بنایا ہو گا کہ عدالت میں ذرا رونق لگی رہے ظفر شاہ نے کہا کہ ایسی کوئی بات نہیں انہوں نے اس بارے میں بات کی تھی اس پر ان کو پارٹی بنایا تھا اعتزاز احسن نے کہا کہ لیڈر آف اپوزیشن اور لیڈر آف دا ہاؤس کا اس میں کوئی کردار نہیں ہے۔

ساجد بھٹی جائے سپیکر اور چیئرمین سینٹ جائے وہ جواب دیں گے تو معاملات واضح ہوں گے۔ حامد خان نے کہا کہ وزیراعظم‘ قائد حزب اختلاف سمیت بہت سے لوگوں کو فریق بنایا گیا ہے ان سے جوابات داخل کرانے کی ہدایت کر دی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ دو ہفتے دے دیئے ہیں آپ جوابات داخل کرا دیں حامد خان نے کہا کہ کم از کم ایک مہینہ تو دے دیں کئی لوگوں تک رابطہ نہیں ہو سکتا ہے۔

ابھی تو اسپیکر اسمبلی موجود نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے آرڈر لکھواتے ہوئے کہا کہ فریقین پیش ہوئے 19 ممبران اسمبلی تحریک انصاف کو نوٹس مل چکے ہیں دیگر ایم این ایز نے جوابات داخل کرانا ہیں وہ جوابات داخل کرائیں۔ اس حوالے سے 4 ہفتوں میں جوابات داخل کرائے جائیں سپریم کورٹ آفس کو ہدایت کی جاتی ہے کہ جن فریقین کو نوٹس جاری نہیں کئے گئے ان کو اور دیگر کو تازہ ترین نوٹس جاری کئے جائیں۔

ظفر علی شاہ نے کہا کہ میں نے ایک اسلام آباد ہائی کورٹ فیصلے کے خلاف درخواست دی تھی۔ اس آرڈر کو معطل کیا جائے چیف جسٹس نے کہا کہ اگر آپ کے ریلیف کے خلاف کوئی بات ہوتی اب تو صرف درخواست خارج کی گئی ہے اس پر کیا آرڈر معطل کریں۔ اعزاز احسن نے کہا کہ خورشید شاہ سمیت ہمارا کوئی رول نہیں ہے ہمیں اس سے الگ کیا جائے۔ عدالت نے کہا کہ اس بارے تو درخواست گزار اتفاق کریں تو؟ ظفر شاہ نے کہا کہ خورشید شاہ نے میڈیا کے ذریعے کہا ہے کہ ان کے استعفے منظور نہیں ہوئے وہ اثر انداز ہو رہے ہیں اس لئے ان کو فریق بنایاگیا چیف جسٹس نے کہا کہ ایم کیو ایم کی طرف سے کوئی آیا ہے تو بتایا گیا کہ کوئی نہیں ایا ہے عدالت نے نوٹس جاری کرنے کو کہا ہے۔

ایم کیو ایم کے 46 ارکان اسمبلی کو بھی نوٹس جاری کئے ہیں۔ عدالت نے کہا کہ ایم کیو ایم کی طرف کوئی ایم این اے پیش نہیں ہوا ان کو تازہ نوٹس جاری کئے جائیں اعتزاز احسن بھی پیش ہوئے اور استدعا کی کہ ان کا اس مقدمے میں کوئی کردار نہیں بنتا ظفر علی شاہ کا بھی بطور لیڈر آف دا ہاؤس کوئی کردار نہیں بنتا۔ تاہم درخواست گزار ان کو فریق رکھنا چاہتے ہیں۔

شاہد اورکزئی نے کہا کہ ان کی استعفوں کے حوالے سے حکم امتناعی کی درخواست ہے۔ جو سیکرٹری اسمبلی کے پاس استعفے موجود ہیں ان کو یہاں منگوایا جائے اگر ایسا نہ کیا گیا تو غیر قانونی اقدام ہو سکتا ہے جب تک یہ عدالت فیصلہ نہیں کرتی اس وقت تک ان کو یہاں منگوا لیا جائے عدالت نے درخواست ساتھ شامل کرنے کی منظوری دے دی۔ ایک اور درخواست گزار نے کہا کہ اراکین کی تنخواہین اور مراعات دی گئی ہیں ان کا آڈٹ کرایا جائے۔ اس بارے جواب طلب کیا جائے عدالت نے اس پر کہا کہ اس کو دیگر مقدمے کے ساتھ شامل کرا دیا ہے۔ مزید سماعت 4 ہفتوں بعد کی جائے گی۔

Live پاکستان تحریک انصاف سے متعلق تازہ ترین معلومات