سانحہ منیٰ میں 48پاکستانی حجاج کرام کی شہادت کی تصدیق ہو چکی ، 41 کی شہادت بارے غیر تصدیق شدہ اطلاعات ہیں،17حجاج لاپتہ ہیں،309 افراد کو ڈھونڈ لیاگیا،سعودی حکومت سانحہ منیٰ کی تحقیقات کروا رہی ہے، رپورٹ آنے پر تفصیلات کے تبادلے کی درخواست کی جائے گی، رواں سال حرم شریف کے قریب مرکزیہ میں 80فیصد پاکستانیوں کو رہائش فراہم کی گئی،مرکزیہ سے باہر رہائش پذیر 20فیصد حجاج اس مد میں 4ہزار ریال واپس کئے جا رہے ہیں،سانحہ منیٰ میں لاشوں کی بے حرمتی بارے خبریں اور وڈیوز جھوٹی ہیں،شہداء کے لواحقین اپنے عزیزوں کی میتیں واپس لانا چاہیں تو حکومت مکمل تعاون کرے گی

وفاقی وزیر مذہبی امور سردار یوسف کی سعودی عرب سے واپسی پر حج آپریشن اور سانحہ منیٰ بارے ہنگامی پریس کانفرنس

جمعرات 8 اکتوبر 2015 20:22

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 08 اکتوبر۔2015ء) وفاقی وزیر مذہبی امور سردار محمد یوسف خان نے کہا ہے کہ سانحہ منیٰ میں 48پاکستانی حجاج کرام کی شہادت کی تصدیق ہو چکی ہے جبکہ 41حجاج کرام کی شہادت بارے غیر تصدیق شدہ اطلاعات ہیں،17حجاج کرام لاپتہ ہیں،309لاپتہ افراد کو ڈھونڈ لیاگیا،سعودی حکومت سانحہ منیٰ کی تحقیقات کروا رہی ہے، رپورٹ آنے پر اس کی تفصیلات پاکستان کے ساتھ شیئر کرنے کی درخواست کی جائے گی، اس سال حرم شریف سے قریب مرکزیہ میں 80فیصد پاکستانیوں کو رہائش فراہم کی گئی،مرکزیہ سے باہر رہائش پذیر 20فیصد حجاج کرام کو رہائش کی مد میں 4ہزار ریال واپس کئے جا رہے ہیں،سانحہ منیٰ میں لاشوں کی بے حرمتی کے حوالے سے میڈیا میں شائع و نشرہونے والی خبریں اور سوشل میڈیا پر چلنے والی اکثر ویڈیوزبے بنیادو جھوٹی ہیں،شہید ہونے والوں کے لواحقین اگر اپنے عزیزوں کی میتیں پاکستان لانا چاہیں تو حکومت بھرپور تعاون کرے گی۔

(جاری ہے)

وہ جمعرات کو یہاں پی آئی ڈی میں سعودی عرب سے واپسی پر حج آپریشن اور سانحہ منیٰ بارے ہنگامی پریس کانفرنس کر رہے تھے۔ وزیر مذہبی امور نے کہا کہ 2015 حج آپریشن کیلئے حکومت نے مثالی انتظامات کئے، اس سال ایک لاکھ 43 ہزار سے زائد حجاج نے فریضہ حج ادا کیا، گزشتہ سال کی نسبت انتظامات مزید بہتر کئے گئے، رہائش، ٹرانسپورٹ کے انتظامات کو بھی امپروکیا گیا، حجاج نے کھانے اور رہائش کے انتظامات کی تعریف کی ہے، اس سال براہ راست 20ہزار عازمین مدینہ منورہ گئے اور مدینہ سے ہی واپس آئیں گے، گزشتہ سال یہ تعداد صرف 7ہزار تھی، اس سال صرف 80فیصد عازمین حج کو حرم شریف کے قریب مرکزیہ میں رہائشیں فراہم کی گئیں، مرکزیہ سے باہر اور حرم سے دور رہنے والوں کو 4ہزار ریال فی کس کے حساب سے پیسے واپس کئے جا رہے ہیں اور ویسے بھی اس سال حج پیکج گزشتہ سال سے 10ہزار روپے سستا تھا۔

انہوں نے کہا کہ وزارت مذہبی امور نے حجاج کرام کیلئے ٹرانسپورٹ کیلئے وی آئی پی بسیں حاصل کیں،حجاج کرام نے بھی رہائش، ٹرانسپورٹ اور کھانے پینے کے انتظامات کی تعریف کی ہے۔حج ایڈوائزری کمیٹی نے حج سے قبل انتظامات کا مکمل جائزہ لیا تھا اور فل پروف انتظامات کو یقینی بنایا۔ انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے اس سال منیٰ میں بڑا سانحہ پیش آیا، دس ذی الحجہ کو منیٰ میں بھگدڑ مچنے سے سینکڑوں افراد شہید ہوئے ، اطلاع ملنے پر مجھ سمیت وزارت مذہبی امور کے تمام حکام اپنے مرکز میں پہنچے اور فوری طور پر امدادی کارروائیوں کا آغاز کیا گیا، حادثے کے چوتھے روز پاکستانی حجاج کے سروے کیلئے ایک ٹاسک فورس بنائی گئی، مذہبی امور کی ریلیف ورکروں نے درجنوں زخمیوں کو ہسپتال میں منتقل کیا اور بے شمار لاپتہ افراد کو تلاش کر کے ان کے کیمپوں تک پہنچایا،302لاپتہ افراد ڈھونڈ کر اپنے اپنے کیمپوں تک پہنچائے گئے۔

انہوں نے کہا کہ مذہبی امور کے اہلکاروں کو گمشدہ، شہید اور لاپتہ ہونے والے حجاج کرام کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کیلئے شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا جس کی وجہ سے میری قیادت میں وزارت کے وفد نے سعودی وزیر حج سے ملاقات کر کے انہیں آمادہ کیا کہ وہ سعودی وزارت حج میں پاکستانی متاثرین کے بارے میں اطلاعات فراہم کرنے کیلئے ایک فوکل پرسن مقرر کریں۔

انہوں نے کہا گزشتہ روز 7 اکتوبر تک سعودی عرب کی طرف سے فراہم کئے گئے تصدیق شدہ اعداد وشمار کے مطابق 48پاکستانیوں کی شہادت کی تصدیق ہو چکی ہے،جبکہ 41حجاج کے عزیز و اقارب یا ان کے ساتھ حج کرنے والوں نے اطلاع فراہم کی ہے کہ وہ شہید ہو چکے ہیں تاہم سعودی وزارت حج کی طرف سے اس کی تصدیق نہیں ہو سکی۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت تک سرکاری حج سکیم سے 5اور پرائیویٹ حج سکیم سے 12حجاج کرام لاپتہ ہیں۔

میڈیا کے سوالات کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سانحہ سعودی عرب میں پیش آیا، اس وجہ سے پاکستانی حکومت کے پاس کوئی اختیار نہیں کہ وہ خود سے سانحہ کی وجوہات بارے تحقیقات کرے، سعودی فرمانروا کے حکم پر سعودی حکومت نے سانحہ کی وجوہات جاننے کیلئے تحقیقات شروع کر دی ہیں،جونہی رپورٹ سامنے آئے گی، ہم انہیں یہ رپورٹ پاکستان کے ساتھ شیئر کرنے کی درخواست کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ مجھ سمیت وزارت کے دیگر حکام پر میڈیا کے ذریعے بہت سارے الزامات لگائے گئے اگرچہ میری دانست میں ان میں سے اکثر لغو و بے بنیاد ہیں، تاہم پھر بھی میں ان سب کی تحقیقات کرواؤں گا۔ انہوں نے کہا کہ ایک الزام مجھ پر یہ بھی لگایا گیا کہ میں اپنی بہو کو بھی حج پر لے گیا جو سراسر بے بنیاد و غلط ہے۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یہ تاثر بالکل غلط ہے کہ سعودی حکومت نے شہید ہونے والے حجاج کرام کی لاشیں لواحقین کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا ہے، حج اور عمرہ پالیسی میں یہ طے ہے کہ دوران حج یا عمرہ کی ادائیگی کے دوران شہید ہونے والوں کو سعودی عرب میں ہی دفن کیا جائے گا، اس کے باوجود حکومت نے تمام لواحقین کو یہ پیشکش کی ہے کہ اگر کوئی اپنے کسی عزیز کی میت پاکستان لانا چاہتا ہے اور یہاں تدفین کرنا چاہتا ہے تو حکومت اس حوالے سے ہر ممکن تعاون کیلئے تیار ہے لیکن ابھی تک صرف تین افراد نے حکومت سے ان کے عزیزوں کی میتیں پاکستان لانے کی درخواست کی ہے، جن میں سے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے عزیز کی میت پہلے ہی پاکستان لائی جا چکی ہے جبکہ دیگر دو درخواستوں پر بھی عملدرآمد کیلئے اقدامات کئے جا رہے ہیں۔

ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سانحہ منیٰ کے بعد لاشوں کی بے حرمتی کے حوالے سے میڈیا میں شائع ہونے والی خبریں اور سوشل میڈیا پر چلنے والی ویڈیوز قطعاً بے بنیاد ہیں، ان میں سے اکثر ویڈیوز سانحہ منیٰ کی بجائے کسی اور موقع کی ہیں۔

متعلقہ عنوان :