پنجاب اسمبلی کا اجلاس سپیکر رانا محمد اقبال خان کی صدارت میں دوپہر دو بجے کی بجائے 5 بجکر 2 منٹ پر شروع ہوا

4 قراردادیں، ایک توسیعی قرارداد فوڈ اتھارٹی پنجاب میں مزید 90 دن کی توسیع منظور کی گئی جبکہ 4 قراردادیں وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے ایوان میں پیش کیں گزشتہ دنوں پی ٹی آئی کے کارکن کو تشدد کر کے ہلاک کر دیا گیا اور پولیس اب تک ملزموں کو گرفتار کرنے میں ناکام رہی‘ اپوزیشن لیڈر میاں محمود الرشید کی پوائنٹ آف آرڈر پر مذمت جس طرح سے کمپین کی جا رہی ہے اور پیسہ خرچ کیا جا رہا ہے تو لگتا ہے کہ یہ الیکشن خونی ہوگا اور میں حکومت کو کہتا ہوں کہ ہوش کے ناخن لے‘ میاں محمود الرشید`

بدھ 7 اکتوبر 2015 23:09

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 08 اکتوبر۔2015ء) صوبائی اسمبلی پنجاب کے سترھویں اجلاس میں مقامی حکومت پنجاب 2015ء ترمیمی بل پاس ہوا۔ 4 قراردادیں، ایک توسیعی قرارداد فوڈ اتھارٹی پنجاب میں مزید 90 دن کی توسیع منظور کی گئی جبکہ 4 قراردادیں وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے ایوان میں پیش کیں جن میں آرڈیننس (ترمیم) (ترویج و انضباط) نجی تعلیمی ادارے پنجاب 2015ء، آرڈیننس علی انسٹیٹیوٹ آف ایجوکیشن لاہور 2015 (ترمیم)، آرڈیننس دوسری مرتبہ غازی یونیورسٹی، ڈیرہ غازی خان 2011ء اور آرڈیننس (ترمیم) غیر منقولہ شہری جائیداد ٹیکس پنجاب 2015ء ایوان میں پیش کی گئیں۔

گزشتہ روز پنجاب اسمبلی کا اجلاس سپیکر رانا محمد اقبال خان کی صدارت میں دوپہر دو بجے کی بجائے 5 بجکر 2 منٹ پر شروع ہوا۔

(جاری ہے)

پوائنٹ آف آرڈر پر اپوزیشن لیڈر میاں محمود الرشید نے پی ٹی آئی کے دو افراد کے قتل پر حکومت اور پولیس کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ دنوں پی ٹی آئی کے کارکن کو تشدد کر کے ہلاک کر دیا گیا اور پولیس اب تک ملزموں کو گرفتار کرنے میں ناکام رہی۔

انہوں نے کہا کہ حلقہ این اے 122 کا الیکشن حکومت نے اپنی انا کا مسئلہ بنا لیا ہے۔ پورے پنجاب کی پولیس اور دیگر ادارے حکومتی امیدواروں کی کمپین میں لگے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جس طرح سے کمپین کی جا رہی ہے اور پیسہ خرچ کیا جا رہا ہے تو لگتا ہے کہ یہ الیکشن خونی ہوگا اور میں حکومت کو کہتا ہوں کہ ہوش کے ناخن لے اور تمام ریاستی اداروں اور پولیس کی غندہ گردی بند کروائی جائے۔

اس پر ایوان میں دونوں اطراف سے ایک دوسرے کے خلاف نعرے بازی شروع ہو گئی اور ایوان مچھلی منڈی کا سماں پیش کرنے لگا۔ اس پر سپیکر نے بار بار کہا کہ ایسا نہ کریں۔ جس پر اپوزیشن نے واک آؤٹ کیا جس پر سپیکر نے ایم پی اے ندیم کامران کو منانے کیلئے بھیجا۔ تھوڑی دیر کے بعد اپوزیشن کے لوگ واپس ایوان میں آ گئے۔ اس پر رانا ثناء اللہ نے اقلیتی مسیحی افراد کے اسمبلی کے باہر احتجاج کے سوال پر کہا کہ مسیحی برادری اس ملک کا حصہ ہے اور آئین کے مطابق ان کا کسی بھی سیٹ پر الیکشن لڑنے کا حق ہے۔

اس دوران اپوزیشن کی ایم پی اے فائزہ ملک نے کورم کی نشاندہی کی جس پر سپیکر نے گنتی کا حکم دیا اور گنتی پوری نکلنے پر دوبارہ اجلاس شروع ہو گیا۔ رکن انعام اللہ نیازی نے پوائنٹ آف آرڈر پر پنجاب اسمبلی کے اراکین کی تنخواہوں میں اضافے کا سوال اٹھایا اور کہا کہ ہماری ایوان میں آواز نہیں سنی جاتی۔ اس پر تمام ایوان احتجاج کرنے لگا تو انعام اللہ نیازی نے کہا کہ سپیکر صاحب اس مسئلے کو خود دیکھیں تو سپیکر نے ان کو یقین دلایا کہ وہ رپورٹ لیکر آج ایوان میں بتائیں گے۔

ان کے جواب میں وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے کہا کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے اس کی منظوری دے دی ہے اور حکومت اراکین اسمبلی کی تنخواہیں دوسرے صوبوں کے برابر کر رہی ہے۔ مقامی حکومت کے بل پر میاں محمود الرشید نے کہا کہ یہ ایک اہم قانون ہے اور اس کی تشہیر کی جانی چاہئے تھی تاکہ عوام کی رائے بھی لی جاتی۔ لوکل باڈیز بننے جا رہی ہیں تو گراس روٹ لیول پر لوگوں کو بااختیار بنانے کیلئے مالیاتی پاور بھی ان کو دی جانی چاہئے اور عوام کے ساتھ رابطہ رکھنے اور ان کے علاقوں میں ترقیاتی کام کروانے کے لئے فنڈز میئر کے پاس ہونے چاہئیں۔

اس قانون کے تحت تو لوکل حکومت کو دائر اختیار سے نکالا جا رہا ہے۔ عارف عباس نے کہا کہ حکومت عوام کے مسائل کی طرف توجہ نہیں دیتی اور سٹینڈنگ کمیٹیاں بنائی جا رہی ہیں اور عوامی نمائندوں کے پاس اختیار نہیں ہے۔ پولیس مسلم لیگ (ن) کا ونگ بنی ہوئی ہے۔ لوکل حکومت کو بااختیار اور طاقتور بنانا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ خواتین کو براہ راست منتخب ہونے کا اختیار ہونا چاہئے لیکن اس کی بجائے خواتین کو نامزدگی کے ذریعے اسمبلیوں میں لایا جاتا ہے۔

انہیں بھی براہ راست انتخابات میں حصہ لیکر آنا چاہئے کیونکہ نامزد کردہ رکن خواتین اپنا رول ادا نہیں کرتیں۔ اقلیتوں کے معاملہ پر رانا ثناء اللہ نے کہا کہ اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ خواتین آبادی کا 50 فیصد ہیں تو انہیں کون الیکشن میں حصہ لینے سے روکتا ہے۔ پاکستان کا آئین سب کو الیکشن میں حصہ لینے کا حق دیتا ہے اور نہ ہی انکو کوئی بنیادی سطح پر منتخب ہونے سے روکتا ہے۔

اس طریقے سے بھی قانون خواتین کو حق دیتا ہے اور یہ طریقہ کار خواتین کیلئے آسان ہے اور الیکشن کمیشن کی اس میں مشاورت شامل ہے۔ اپوزیشن اقلیتی رکن شیلا روتھ نے کہا کہ ہم پاکستان میں عزت کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔ اگر ہم ووٹ دے سکتے ہیں تو ہمیں ووٹ لینے کا بھی حق ہونا چاہئے۔ ہماری خواتین اور یوتھ کو الیکشن لڑنے کا حق دیں۔ اس پر وزیر قانون نے کہا کہ وہ یونین کی سطح پر بھی اپنا حق استعمال کر سکتی ہیں۔ اس کے بعد سپیکر نے اجلاس آج صبح 10 بجے تک ملتوی کر دیا۔