جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس شورٰی کا مقبوضہ جموں و کشمیر میں بڑھتی ریاستی دہشتگردی پر تشویش کااظہار

مقبوضہ کشمیر میں ذبیحہ پر پابندی کا فیصلہ بین الاقوامی اور بھارتی دستور کی خلا ف ورزی ہے، کٹھ پتلی حکومت اور عدلیہ کے اس طرح کے اقدامات دین میں مداخلت کے مترادف ہیں،اقوام متحدہ سمیت عالمی ادار ے مودی کی انتہا پسندانہ پالیسیوں کا نوٹس لیں اور بھارتی ہٹ دھرمی کے نتیجے میں خطے کے امن کو درپیش خطرات سے بچانے کے لیے کردار ادا کریں ، قومی کشمیر کانفرنس ، بین الاقوامی برادری ، خصوصاً برطانیہ اور امریکہ مقبوضہ کشمیر میں رائے شماری کرانے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی و ریاستی تشدد کور کوانے کے لیے اپنا کردار ادا کرے ،جماعت اسلامی کی شوریٰ کی کشمیر میں بڑھتی دہشتگردی اور دستوری امور بارے قرار دادیں منظور

بدھ 7 اکتوبر 2015 22:40

لاہور ( اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 08 اکتوبر۔2015ء ) جماعت اسلامی پاکستان کی مرکزی مجلس شورٰی نے اپنے حالیہ اجلاس میں مقبوضہ جموں و کشمیر میں بڑھتی ہوئی ریاستی دہشتگردی پر تشویش کااظہار کیا ہے ۔ اس بارے میں منظور کی گئی ایک قرار داد میں کہاگیاہے کہ ایک لاکھ بھارتی فوج اور ایجنسیاں ایک طرف تو حریت پسندوں کی ٹارگٹ کلنگ کر رہی ہیں اور دوسری طرف غیر ریاستی ہندو آباد کاروں کو مقبوضہ ریاست میں بسانے کی کوشش جاری ہے ۔

اجلاس اس امر پر بھی تشویش کا اظہار کرتاہے کہ مقبوضہ ریاست میں بی جے پی کی مخلوط حکومت نے آر ایس ایس کے مسلم دشمنی پر مشتمل ایجنڈے کو نافذ کرنے کے لیے عدالتوں تک کو آلہ کار بنالیا ہے جس کی تازہ مثال سری نگر ہائی کورٹ کی طرف سے گائے کے ذبیحہ پر پابندی کا حالیہ فیصلہ ہے جو بین الاقوامی اور بھارتی دستور میں درج آزادی کے حق کی شدید خلا ف ورزی ہے ۔

(جاری ہے)

شورٰی کے نزدیک کٹھ پتلی حکومت اور عدلیہ کے اس طرح کے اقدامات دین میں مداخلت کے مترادف ہیں ۔ اجلاس جبر و تشدد اور ریاستی دہشتگردی کے باوجود پاکستانی پرچموں کو لہراتے ہوئے مملکت خدا داد کے ساتھ یکجہتی کے مظاہرے کی تحسین کرتے ہوئے ا پنے کشمیری بھائیوں کویقین دلاتاہے کہ جماعت اسلامی اور اہل پاکستان منزل کے حصول تک ان کی اس جدوجہد کے شانہ بشانہ ہیں ۔

اجلاس اقوام متحدہ میں وزیراعظم پاکستان اور 6ستمبر کے موقع پر چیف آف آرمی سٹاف کے خطابات کو خوش آئند قرار دیتاہے جن میں دوٹوک انداز سے مسئلہ کشمیر پر قومی موقف کا اعادہ کیا گیاہے۔اجلاس مسئلہ کشمیر پر بھارتی ہٹ دھرمی اور سیز فائر لائن اور ورکنگ باؤنڈری پر بلااشتعال فائرنگ پر بھی تشویش کا اظہار کرتاہے اور اقوام متحدہ سمیت عالمی اداروں سے اپیل کرتاہے کہ وہ نریندرمودی کی انتہا پسندانہ پالیسیوں کا نوٹس لیں اور بھارتی ہٹ دھرمی کے نتیجے میں خطے کے امن کو درپیش خطرات سے بچانے کے لیے کردار ادا کریں ۔

اجلاس میں مطالبہ کہاگیاہے کہ قومی کشمیر کانفرنس ، بین الاقوامی برادری ، خصوصاً برطانیہ اور امریکہ مقبوضہ کشمیر میں رائے شماری کرانے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی و ریاستی تشدد کور کوانے کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔ اجلاس قائد حریت سید علی گیلانی کی قیادت میں دیگر حریت قائدین کے اتحاد کو حالات کے تقاضوں کے مطابق خوش آئند پیش رفت قرار دیتاہے اور یہ توقع رکھتاہے کہ تمام قائدین اور حریت پسند حق خود ارادیت کے حصول کے لیے اپنی صفوں میں اتحاد اور یکجہتی کو برقرا ررکھیں گے ۔

دستوری امور کے بارے میں منظور کی گئی قرار داد میں کہاگیاہے کہ انتخابات 2013ء کے حوالہ سے جوڈیشل کمیشن کی تشکیل سے عوام میں یہ توقع پیداہوئی تھی کہ انتخابات 2013ء میں دھاندلی کرنے والی پارٹیوں اور شخصیات کو بے نقاب کرکے انتخابات کے شفاف اور غیر جانبدار کرانے کی راہ ہموار ہوگی ۔اسی بنیاد پر اس کی تحسین بھی ہوئی اور اُمیدکی ایک کرن نظر آنے لگی۔

لیکن جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ نے جو اُمید پیدا کی تھی اگلے مرحلے میں انتخابات 2013ء کی دھاندلیوں پر پردہ ڈال کرایک بار پھر عوام کو مایوس کیاگیا ہے۔ پارلیمانی انتخابی اصلاحات کمیٹی کے قیام کو کئی ماہ گزرنے کے باوجود کوئی پیش رفت نہ ہونا باعث تشویش ہے۔ پارلیمانی انتخابی اصلاحات کمیٹی کی ایک سب کمیٹی کے حالیہ اجلاس میں دستور کی دفعہ 62اور 63کی اسلامی ذیلی دفعات کو غیر مؤثر بنانے کے لیے سفارشات درحقیقت نظریہ پاکستان اور اسلامی اقدار کی کھلی خلاف ورزی ہے۔

سپریم کورٹ آف پاکستان میں حال ہی میں دستوری ترمیمات کے خلاف کئی درجن درخواستوں کی سماعت کے بعد بعض معزز جج حضرات نے اپنے اپنے فیصلے علیحدہ علیحدہ لکھے۔ جس میں سے بعض فیصلوں میں دستور کے بنیادی ڈھانچے میں پارلیمانی نظام اور عدلیہ کی آزادی کے ساتھ اسلام کو شامل نہیں کیاگیاہے جبکہ ایک تحریر کردہ فیصلہ میں اس نظریہ کو پیش کرنا کہ دستور کی تمام دفعات میں ترمیم اور ختم کرنے کا حق پارلیمنٹ کو حاصل ہے، بہت تشویش ناک ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ بعض معزز جج حضرات نے یہ تحریر کیا ہے کہ اسلام دستورپاکستان1973ء کے بنیادی ڈھانچہ میں شامل ہے جس کی ترمیم و تنسیخ کاپارلیمنٹ کو اختیار نہیں ہے کیونکہ پارلیمنٹ دستور پاکستان 1973ء کی بنیاد پر وجود میں آئی ہے جوکہ قابل تحسین فیصلہ ہے۔مجلس شوریٰ جماعت اسلامی پاکستان ان سارے معاملات اور صورت حال کابغور جائزہ لینے کے بعد مطالبہ کرتی ہے کہ ماہرین دستور و دانشور اور صاحبان علم و قلم پاکستان کے اسلامی تشخص کو اُجاگر کریں تاکہ آنے والی نسلیں نظریہ پاکستان سے آگاہ ہوسکیں۔

سپریم کورٹ میں دستوری ترمیمات کے حوالہ سے جاری کردہ فیصلہ کے خلاف نظرثانی کی درخواست داخل کرنے والے حضرات درخواست کی سماعت کے دوران اسلام کو دستور کے بنیادی ڈھانچہ کے طور پرتسلیم کروانے اور بنیادی ڈھانچہ کو تحفظ دلوانے کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔پارلیمانی انتخابی اصلاحات کمیٹی انتخابات کو غیر جانبدار و شفاف بنانے کے لیے جلد از جلد اپنی سفارشات مرتب کرلے اور اس کی آڑمیں دفعہ 62اور 63کی اسلامی شقوں کو غیر مؤثر بنانے کی سازشوں کے راستے بند کیے جائیں ۔

مرکزی مجلس شوریٰ رجماعت اسلامی پاکستان واضح کرنا چاہتی ہے کہ پاکستان کا قیام ہی دو قومی نظریے کی بنیاد پر عمل میں آیا اور دوقومی نظریہ اسلام کے بغیر کچھ بھی نہیں تھا۔ اسلام دستور پاکستان میں وہ بنیادی حیثیت رکھتاہے جو ناقابل تبدیل ہے اور اس کو کسی فیصلے یا ترمیم کے ذریعے دستور میں غیر مؤثر نہیں کیاجاسکتا۔