سیاسی مخالفانہ نعرہ بازی کی ہلکی پھلکی’ موسیقی ‘ ، احتجاج اور ارکان کی تنخواہوں میں اضافے کی یقین دہانی کے بعد کے بعد پنجاب اسمبلی نے تمام اعتراضات مسترد

Zeeshan Haider ذیشان حیدر بدھ 7 اکتوبر 2015 21:46

لاہور( اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 08 اکتوبر۔2015ء ) سیاسی مخالفانہ نعرہ بازی کی ہلکی پھلکی’ موسیقی ‘ ، احتجاج اور ارکان کی تنخواہوں میں اضافے کی یقین دہانی کے بعد کے بعد پنجاب اسمبلی نے تمام اعتراضات مسترد اور اپوزیشن کی تحریکیں رد کرتے ہوئے پنجاب لوکل گورمنٹ ترمیمی بل منظور کرلیا ہے جبکہ تعلیمی اداروں پر کنٹرول اور فوڈ اتھارٹی کے آرڈیننس کی مدت معیاد میں توسیع کردی ہے، ڈیرہ غازی خان یونیورسٹی سمیت تین مسوداتِ قانون ایوان میں پیش کردیے گئے ہیں تاہم ، وزیر اعلیٰ اور پارلیمانی سیکرٹری کی عدم موجودگی کے باعث محکمہ صحت سے متعلق سوالات زیر بحث نہ آسکے ۔

جو متعلقہ کمیٹیوں کے سپر کردیے گئے ہیں ۔ پنجاب اسمبلی کا 17واں اجلاس سپیکر رانا محمد اقبال کی صدارت میں تین گھنٹے دومنٹ کی تاخیر سے شروع ہوا تو ایجنڈے کی کارروائی شروع سے پہلے حکومتی رکن مولوی غیاث الدین اور خواتین م کے ایک گروپ نے ارکان، اسمبلی کی تمکواہوں میں اضافے کا مطالبہ شروع کردیا لیکن سپیکر نے خاموش کروا دیا جس کے بعد مخصوص نشست پر نومنتخب حکومتی رکن فریحہ فاطمہ نے ایوان کے رکن کی حیثیت سے حلف اٹھایا ۔

(جاری ہے)

ایجنڈے کی کارروائی شروع ہوتے ہی پوائنٹ آف آرڈر پر بات کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر میاں محمود الرشید نے ایوان کی توجہ لاہور میں قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 122کے ضمنی الیکشن میں حکومت کی مبینہ من مانی کا معاملہ اٹھایا اور کہا کہ حکومتی امیدواروں کو کامیاب کرانے کیلئے پی ٹی آئی کے اراکین کو ہراساں کیا جارہا ہے اور انہیں تشدد کا نشانہ بنایا جارپہا ہے اب تک دو کارکنوں کو قتل کیا جاچکا ہے لیکن پولیس کوئی کاروائی نہیں کر رہی تمام ریاستی مشینری حکومت اپنے امیدوار کی کامیابی اور پی ٹی آئی کے امیدوار کا ناکام بنانے کیلئے استعمال کر رہی ہے ۔

ان کی بات جاری تھی کہ حکومتی اراکان نے نشستوں پر کھڑے ہو کر نعرہ بازی شروع کردی ،جواب پی ٹی آئی کے اراکان نے بھی نعرے لگائے لگائے چند منٹ تک ایوان میں کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی ، اسی دوران پی ٹی آئی کے ارکان واک آﺅٹ کر گئے اور سپیکر نے آگاہ کیا مھکمہ صحت کے بارے میں سوالات کے جوابات اس محکمے کے پارلیمانی سیکرٹری نے دینا تھے لیکن ایک عزیز کے انتقال کے باعث انہوں نے ایوان میں حاضر ہونے سے معذرت کی ہے اس لئے یہ وقفہ سوالات موخر کیا جاتا ہے ۔

واضح رہے کہ وزیر اعلیٰ شہباز شریف محکمہ صحت کے بھی وزیر ہیں ۔ اسی دوران سرکاری کارروائی شروع کردی گئی جبکہ اپوزیشن بھی واک آﺅٹ ختم کرکے ایوان میں واپس آگئی ۔ ایوان نے پنجاب فوڈ اتھارٹی اور تعلیمی اداروں کے بارے میں آرڈیننس کی مدت میں توسیع کی منظوری دی جس کے بعد پنجاب لوکل گورنمنٹ بل زیر بحچ لایا گیا جس میں اپوزیشن کی طرف سے یہ بل عوامی رائے کی غرض سے مشتہر کرنے اور خصوصی کمیٹی کو بھجوانے کیلئے دو ترامیم پیش کی جو ایوان نے کژرتِ رائے سے مسترد کردیں ۔

ان ترامیم کے حق میں اپوزیشن لیڈر میاںمحمود الرشید ، ،عارف عباسی ، شنیلہ روت اور فائزہ ملک نے بحث کی ۔ میاں محمود ارلشید اور ان کے ساتھی ارکان کا کہنا تھا کہ اختیارات نچلی سطح پر منتقل کرنے ، ، کاسانوں ، اقلیتوں ،خواتین اور نوجوانوں کو براہِ راست منتخب کرنے کے بجائے ان کے انتخاب کیلئے بڑے لوگوں کو بااختیا ربنانے اور من مانی کے ساتھ ساتھ کرپشن کا راستہ کھول دیا گیا ہے ، منتخب اداروں کو با اختیار بنانے کے بجائے بیوروکریسی کو اختیارات دیے گئے ہیں ، یہ خواتین ، اقلیتیون ، کسانوں ، نوجوانوں اور بنیادی جمہورت کا قتل ہے جس کا ہم حصہ نہیں بنیں گے ۔

ان نکات کا جواب دیتے ہوئے وزیر قانون رانا ثنا اللہ نے کہا کہ یہ بل طویل عرصے سے زیر بحث ہے اور پنجاب حکومت کی ویب سائٹ پر بھی موجود ہے ، اسمبلی میں بھی کئی بار بھچ ہوچکی ہے اس لئے مشتہر کرنے کی ضرورت نہیں ہے جبکہ خواتین ، کسانوں ، اقلیتوں اور نو جوانوں کو اِ ن ڈائریکٹ الیکشن سے منتخب کرنا بھی معیوب نہیں بلکہ ان کی نمائندگی یقینی بنائی گئی ہے جبکہ یہ طریقِ انتخاب سینٹ سے لیکر صوبائی اسمبلیوں تک پہلے ہی رائج ہے ، اگر اقلتی برادری ، نوجوان ، کسان اور خواتین براہِ راست الیکشن لڑنا چاہین تو ان کیلئے کوئی ممانعت نہیں لیکن انہیں اس طرح الیکشن لڑنے سےمشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا ۔

رائے شماری میں یہ بل کثرتِ رائے سے منظور کرلیا گیا ۔ اس سے پہلے حکومتی اقلیتی رکن شہزاد منشی نے ایوان کی توجہ اقلیتی برادری کی طرف سے موجود، طریقِ انتخاب کے خلاف مال روڈ پر کیے جانے والے مظاہرے کی طرف توجہ دلائی تھی اور وزیر قانون نے ان کا موقف سننے کی یقین دہانی کروائی تھی ۔ سرکاری کارروائی کے دوران ہی حکومتی رکن انعام اللہ نیازی نے پوائنٹ آف آرڈر پر بات کرتے اور ساتھی ارکان کی نمائندگیکرتے ہوئے ارکانِ اسم،بلی کی تنخواہوں کا معاملہ اٹھایا ، خواتین سمیت حکومتی و اپوزیشن ارکان اس موقف کی حمایت میں نشتوں پر کھڑے ہوگئے ، وزیر قانون نے ایوان کو بتایا کہ تنخواہوں میںاضافہ نہیں کیا جارہا بلکہ بڑھا کر دوسری اسمبلیوں کے ارکان کے مساوی کی جارہی ہیں جس کی وزیر اعلیٰ نے منظوری دیدی ہے تاہم تمام جماعتوں کے پارلیمانی لہیڈروں کی متفقہ رائے آنا باقی ہے یہ رائے اسلئے ضروری ہے تاکہ کوئی انگشت نمائی نہ کرے ، یہ رائے ملتے ہی طے شدہ طریقِ کار اختیار کرلیا جائے گا ۔

متعلقہ عنوان :