Live Updates

وفاقی حکومت کی جانب سے ایل این جی کی درآمد کے پورے عمل کے دوران پارلیمان کو نظر انداز کرنے کی شدید مذمت کرتے ہیں، تحریک انصاف کے مرکزی رہنما اور پالیسی میڈیا ،مارکیٹنگ کے سربراہ اسد عمر کا بیان

بدھ 7 اکتوبر 2015 19:20

اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 07 اکتوبر۔2015ء ) پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنما اور پالیسی میڈیا اورمارکیٹنگ کے سربراہ اسد عمر نے وفاقی حکومت کی جانب سے ایل این جی کی درآمد کے پورے عمل کے دوران پارلیمان کو نظر انداز کرنے کی شدید مذمت کی ہے۔ ایس آر او کے ذریعے ایل این جی کی پرائسنگ فارمولے کے نفاذ کی کوششوں پر انتہائی تشویش کا اظہار کیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اربوں ڈالرز مالیت کی ایل این جی درآمد کے پاکستانی عوام کی اقتصادیات پر براہ راست اثرات مرتب ہوں گے چنانچہ لازم ہے کہ حکومت شفافیت یقینی بنائے اور عوام کے منتخب نمائندوں کے سامنے معاملے کی پوری تفصیلات رکھے جو اس بات کا خیال رکھیں کے بند دروازوں کے عقب میں غریب عوام پر ناروا بوجھ لادنے کی کوئی بھی کوشش کامیاب نہ ہونے پائے۔

(جاری ہے)

ان کے مطابق حکومت کی جانب سے ایل این جی کی درآمد کا ہر پہلو پر شکوک و شبہات کی تہہ چڑھی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایل این جی کی درآمد سے لے کر اس کی تقسیم تک کا ہر پہلو خفیہ رکھا جا رہا ہے اور اس کی خریدو فروخت، ذخیرہ کرنے اور دوبارہ گیس میں تبدیل کرنے جیسے مراحل سے متعلق معاہدوں تک کو پارلیمان سے پوشیدہ رکھا جا رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر حکومت کے پاس چھپانے کو کچھ نہیں تو ان تمام معاہدوں کو پارلیمان کے سامنے رکھنے سے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیوں کیا جارہا ہے۔

اسد عمر کے مطابق حکومت پر لازم ہے کہ وہ پارلیمان کو بتائے کہ کس کمپنی سے گیس خریدی جا رہی ہے اور اس کمپنی کے حقیقی مالک کون ہیں۔ محض ایسا کہنا کہ ایل این جی قطر سے درآمد کی جارہی ہے کا بالکل کوئی مطلب نہیں۔ کیونکہ اگر کسی تحریری معاہدے کے بغیر ہی درآمد کی جارہی ہے تو شفافیت کیونکر ممکن ہوسکے گی اور اس کے نرخوں کی معقولیت کو کیسے یقینی بنایا جائے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ حکومت بتائے کہ مقابلے کی بولیوں کے حصول کیلئے حکومت نے کیا طریقہ کار اختیار کیا اور جو بولیاں وصول ہوئیں ان کے نتائج کیا رہے۔ 2011کی ایل این جی پالیسی میں تحریر کیا گیا ہے کہ ایل این جی کی ex flange priceمیں درآمدی لاگت اور ٹرمینل پر کی جانے والی سرمایہ کاری پر معقول منافع شامل ہوگا۔ چنانچہ مناسب اور معقول منافع کی ادائیگی کیلئے کیا طریقہ کار اختیار کیا گیا ہے اور متوقع منافع کی شرح کیا ہے۔

درآمدی کمپنی کے منافع کے تعین کا فارمولہ کیا ہے اور اس فارمولے کے فیصلے کا پیمانہ کیا ہے۔ ملک بھر میں اپنے وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے ایل این جی کی تقیم و ترسیل کی ذمہ دار کمپنیوں کیلئے منافع کی ادائیگی کا طریقہ کار کیا ہے۔ ان کے مطابق تقسیم و ترسیل میں حصہ لینے والی بیشتر کمپنیاں مناپلیز کی حیثیت رکھتی ہیں جن کے مالیاتی حقوق زیادہ تر نجی شعبے کے ہاتھ میں ہیں چونکہ منافع کا تعین میں ریگولیٹر کافعال کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے چنانچہ اس پورے عمل کے دوران پارلیمان کو کردار دیا جائے جوکہ آئندہ برسوں میں اربوں ڈالرز کے حجم پر مشتمل ایل این جی تجارت میں ایک نظیر ثابت ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کا دعوی ہے کہ ایل این جی کی درآمد سے اربوں کی بچت کی جائے گی چنانچہ ہمارا مطالبہ ہے کہ حکومت پارلیمانی کے سامنے ایک ہی دورانیے کے دوران درآمد ہو کر بیچی جانے والی ایل این جی اور فرنس آئل کی فی MBTUلاگت کا ایک تقابل پیش کرے تاکہ قوم حکومت کے دعوں کی صداقت جان سکے۔ ان کے مطابق تحریک انصاف قومی میڈیا کے ذریعے یہ تمام اہم سوالات اٹھانے پر مجبور ہے کیونکہ جب بھی اس معاملے پر سوالات اٹھائے گئے حکومت نے لیت و لعل سے کام لیا۔ اب گزشتہ دو ماہ سے حکومت قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے سے مکمل طور پر گریز کر رہی ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے جیسے عوام کے تمام مسائل حل کیے جاچکے ہیں اور اب حکومت کو مزید قانون سازی کی بھی کوئی ضرورت نہیں۔

Live پاکستان تحریک انصاف سے متعلق تازہ ترین معلومات