ملک بھر میں لیڈی ہیلتھ ورکروں کو 24 گھنٹوں میں تنخواہوں کی ادائیگی کا حکم

منگل 22 ستمبر 2015 12:59

ملک بھر میں لیڈی ہیلتھ ورکروں کو 24 گھنٹوں میں تنخواہوں کی ادائیگی کا ..

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 22 ستمبر۔2015ء) سپریم کورٹ نے ملک بھر میں لیڈی ہیلتھ ورکروں کو 24 گھنٹوں میں تنخواہوں کی ادائیگی کا حکم دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ آئندہ تنخواہوں کی عدم ادائیگی کا معاملہ سمیت دیگر معاملات سپریم کورٹ آئے تو پھر وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کریں گے۔ وفاق اور صوبے تنخواہوں کی ادائیگی بارے طریقہ کار وضع کریں تاکہ آئندہ اس میں کوئی مسئلہ پیش نہ آئے۔

یہ حکم جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے منگل کے روز جاری کیا ۔ جسٹس دوست نے کہا ہے کہ مہلک امراض اور پولیو کے خاتمے میں اپنا کردار ادا کرنے والی لیڈی ہیلتھ ورکرز سڑکوں پر ہیں۔ یہ بات بہت شرمناک ہے جب وفاق صوبوں کے ساتھ اجلاس میں تنخواہوں کی ادائیگی کا کہہ چکا ہے تو یہ تنخواہیں کیوں نہیں دی جا رہی ہیں۔

(جاری ہے)

وفاق اور صوبوں نے اپنی اپنی رپورٹس پیش کیں۔

پنجاب اور کے پی کے نے تنخواہیں ادا کر دی ہیں جبکہ سندھ اور بلوچستان‘ اسلام آباد نے تنخواہیں ادا کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ جسٹس دوست نے کہا کہ بیورو کریسی جان بوجھ کر ملازمین کے معاملات کو کیوں طول دیتے ہیں لیڈی ہیلتھ ورکرز سڑکوں پر ہیں روز یہ ایشو بن رہا ہے جس سے ملک کی بدنامی ہوتی ہے۔ شرمناک بات ہے کہ لیڈی ہیلتھ ورکرز کا خیال نہیں رکھا جا رہا ہے جو پولیو اور دیگر مہلک بیماریوں کی روک تھام کے لئے اپنی خدمات سرانجام دیتی ہیں۔

پنجاب نے بتایا کہ لیڈی ہیلتھ ورکرز کی تنخواہیں ادا کر دی گئی ہیں۔ کے پی کے نے بھی تنخواہیں ادا کر دی ہیں ان لیدی ہیلتھ ورکرز کو باقاعدہ بھی کر دیا گیا ہے تنخواہیں بھی اپ ڈیٹ ہیں جسٹس دوست نے کہا کہ مشکلات کیا ہیں قانون سازی چھوڑیں۔ کیا اس حوالے سے کوئی زائد گرانٹ منظور کرائی گئی ہے۔ جسٹس فائز نے کہا کہ سندھ اور بلوچستان کیا کر رہے ہیں۔

بشریٰ آرائیں نے بتایا کہ جب عدالت سماعت شروع کرتی ہے تو یہ تنخواہیں ادا کر دیتے ہیں وگرنہ یہ کچھ بھی کرنا نہیں چاہتے صوبے کہہ رہے ہیں کہ یہ سب وفاق کرے گا۔ پنجاب حکومت نے بتایا کہ ایکٹ پاس کر دیا گیا ہے اور لیڈی ہیلتھ ورکروں کو باقاعدہ کر دیا گیا ہے بشریٰ آرائیں نے کہا کہ انہوں نے جو اتھارٹی بنائی ہے وہ کچھ بھی کرنے کو تیار نہیں ہے۔

پنجاب حکومت نے بتایا کہ 15 مارچ 2014ء کو ایکٹ پاس کر دیا گیا تھا عدالت نے کہا کہ بجٹ بارے کیا گیا ہے ان کو تنخواہیں کہاں سے دی جا رہی ہیں جسٹس دوست نے کہا کہ اگر آپ نے یہ سب کچھ کر دیا ہے تو پھر لیڈی ہیلتھ ورکرز سڑکوں پر کیوں ہیں۔ عدالت نے پوچھا کہ تنخواہ ملی ہے۔ بتایا گیا کہ 3 ماہ کی تنخواہیں نہیں مل رہی تھیں۔ الاؤنس کاٹ دیئے گئے ہیں جسٹس اعجاز نے کہا کہ ہر بات سپریم کورٹ نہ لائیں ایکٹ پاس کرا دیا ہے۔

آپ ریگولر ہو گئیں سارے مسائل ہم نے حل نہیں کرنے آپ اپنے محکمہ کے ہیڈ کے پاس جائیں۔ رزاق نے کہا کہ عدالت نے حکمنامے میں کیا تھا کہ اگر لیدی ہیلتھ ورکرز کو کچھ مسائل پیش ہوتے ہیں تو وہ سروس ٹربیونلز سے رابطہ کریں کے پی کے نے بھی بتایا کہ ہمارا بھی ایکٹ پاس ہو گیا ہے۔ ایشو کیا ہے وہ بتانا چاہتا ہوں۔ یہ دو جولائی 2014ء کو جاری کیا گیا تھا بجٹ دینا وفاق کا کام ہے اجلاس میں بھی طے ہو گیا تھا۔

تنخواہیں انہوں نے دینا ہے۔ جسٹس دوست نے کہا کہ یہ آپ کے صوبے کے ملازمین ہیں آپ ہی تنخواہیں دیں۔ آپ خود اس بارے اقدامات کریں آپ تنخواہیں بند نہیں کر سکتے۔ جسٹس اعجاز نے کہا کہ اب مسئلہ آپ کے اور وفاق کے درمیان ہے ہم اس میں مداخلت نہیں کرینگے۔ کے پی کے نے بتایا کہ پچھلے 3 ماہ کی تنخواہ وفاق نے نہیں دی ہم نے دے دی ہے۔ ساجد بھٹی نے کہا کہ ہم نے یہ رقم دینی ہے صوبے تنخواہیں دیں گے وفاق بعد میں یہ رقم ادا کر دے گا۔

ہم قسطوں میں رقم دیں گے۔ جسٹس دوست نے کہا کہ اگر آپ رقم قسطوں میں دیں گے تو پھر یہ تو سڑکوں پر آئیں گے جسٹس فائز نے کہا کہ وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ تنخواہیں ادا کریں کوئی آپ کو رقم دیتا ہے یا نہیں۔ آپ تنخواہیں دیں۔ بات ختم ہو گئی آپ وقت پر رقم دیں جسٹس دوست نے کہا کہ کے پی کے نے 3 ماہ کی تنخواہیں خود دی ہیں۔ آپ کو استدعا ہی کیوں کی جائے۔

بیورو کریٹس جان بوجھ کر دستخط نہیں کرتے آپ ایک خود کار نطام وضع کریں تاکہ ان کو بروقت تنخواہ ملتی رہے۔ ساجد بھٹی نے کہا کہ تنخواہیں صوبوں نے دینی ہیں ہم تو اصافی رقم دینے کو تیار ہیں اور دے بھی رہے ہیں۔ جسٹس دوست نے کہا کہ سی سی آئی کی میٹنگ میں کیا ہوا تھا اس پر اس کی تفصیل عدالت میں پیش کی گئی۔ جسٹس دوست نے کہا کہ صوبے اپنا کام کر رہے ہیں وفاق بھی اپنا کام کرے۔

ساجد بھٹی نے کہا کہ وفاق نے بلوچستان کو جون 2015ء سے رقم جاری نہیں کی گئی ہے جس کی وجہ سے وہ تنخواہیں ادا نہیں کر سکے ہیں چند دنوں میں تنخواہوں کی ادائیگی ہو جائے گی۔ بلوچستان نے بتایا کہ 366 لیڈی ہیلتھ ورکرز کا بجٹ مقرر کیا جا چکا ہے ان کو ریگولر کیا گیا ہے فنانس ڈویژن نے کہا کہ سپلمنٹری گرانٹ میں وقت لگے گا۔

جسٹس دوست نے کہا کہ بابو صاحبان نجانے کیا کر رہے ہیں۔

2012ء سے اب تک کچھ نہیں کیا گیا صوبائی حکومت کی کیا ذمہ داری ہے؟ ساجد بھٹی نے کہا کہ سکیل وائز تنخواہوں کی ادائیگی اس سال سے شروع ہو جائے گی۔ سندھ حکومت نے بتایا کہ ہم نے سب کو ریگولر کر دیا ہے سب تنخواہیں دے دی گئی ہیں صرف اگست اور ستمبر کی تنخواہ باقی ہے۔ وفاق پیسے دے گا تو تنخواہیں دیں گے۔ جسٹس اعجاز نے کہا کہ آپ وفاق کا کیوں انتظار کر رہے ہیں اپ دوسرے صوبوں کی طرح تنخواہ کیوں نہیں دے رہے ہیں۔

اگر وفاق رقم جاری نہیں کرتی تو صوبائی حکومت اپنے بجٹ سے رقم جاری کرے جسٹس دوست نے کہا کہ عید قریب ہے اگر تنخواہ نہیں ملے گی تو یہ اپنے اور اپنے بچوں کے لئے کپڑے کیسے خریدیں گے آپ قانون کی خلاف ورزی کر رہے ہیں اگر کے پی کے پسماندہ ہونے کے باوجود 3 ماہ کی تنخواہ دے سکتا ہے آپ کیوں نہیں دے سکتے۔ جسٹس اعجاز نے کہا کہ ہمیں آپ کے مسائل سے کوئی سروکار نہیں ہے آپ ان ورکروں کو تنخواہیں دیں۔

غیر ضروری معاملات پر اتنی بری بڑی رقمیں دے دی جاتی ہیں آپ کیوں نہیں دے رہے ہیں بلوچستان نے بھی بتایا کہ اگست تک تنخواہیں دے دی ہیں مزید بھی دے دیں گے۔ جسٹس دوست نے کہا کہ آپ خود اپنا کام کیوں نہیں کرتے آپ قانون خود بناتے ہیں اور خود ہی اس کی پیروی نہیں کرتے یہ تو غلاموں والی بات ہے کہ کام لے لیا جائے اور تنخواہ نہ دی جائے۔ عدالت نے آرڈر تحریر کرایا ستمبر کی تنخواہیں بلوچستان اور سندھ میں نہیں دی گئی ہیں یہ تنخواہیں ادا کی جائیں۔

پنجاب اور کے پی کے نے بجٹ میں یہ شامل نہیں کیا ہے مگر تنخواہین ادا کر دی ہیں۔ تنخواہوں کی ادائیگی بارے صوبے اور وفاق میکنزم بنائیں اور ان ورکروں کو بار بار سپریم کورٹ نہ انا پڑے۔ 24 گھنٹوں میں لیڈی ہیلتھ ورکروں کو تنخواہیں دی جائیں۔ جسٹس اعجاز نے کہا کہ ہم کچھ نہیں کہنا چاہتے بہتر ہو گا کہ آپ تنخواہیں دیں۔ کارکنان کی تنخواہیں کیوں روکتے ہیں آپ کیوں اس معاملے میں ہچکچاتے ہیں۔

جسٹس دوست نے کہا کہ یہ قومی دلچسپی کے معاملات ہیں جن میں ان سے خدمات حاصل کی جاتی ہیں جسٹس اعجاز نے کہا کہ تنخواہوں میں رکاوٹ برداشت نہ کی جائے گی۔ ورکروں کو تنخواہ 24 گھنٹوں میں ادا کی جائے مستقبل میں تنخواہیں نہ روکی جائیں بصورت دیگر ہم کارروائی کریں گے۔ وفاق بھی صوبوں کو منظور کردہ رقم ادا کرے۔ ساجد بھٹی نے بتایا کہ اسلام آباد لیڈی ورکرز سول سرونٹس بن چکی ہیں ان کو تنخواہوں کی ادائیگی جلد کر دی جائے گی۔

جسٹس دوست نے کہا کہ جب وفاق نے تسلیم کیا ہے کہ لیڈی ہیلتھ ورکروں کی تنخواہوں کی رقم وہ ادا کرے گا تو اب کیوں یہ رقم نہیں دی جا رہی ہے۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ 4 ماہ گزر گئے ہیں آپ نے عدالتی احکامات پر کیوں کچھ نہیں کیا۔ وفاقی حکومت کو توہین عدالت کا نوٹس جاری ہونا چاہئے۔ عدالت نے آرڈر کیا کہ 24 گھنٹون میں وفاقی حکومت بھی اسلام آباد کی لیڈی ہیلتھ ورکروں کو تنخواہیں دے۔ باقی معاملات میں لیڈی ہیلتھ ورکرز سروس ٹربیونلز کے پاس جائیں جسٹس اعجاز نے کہا کہ ہم نے کہہ دیا ہے کہ اب بار بار ہم ہدایات جاری نہیں کریں گے۔ وفاق اور صوبوں نے بات نہ مانی تو توہین عدالت کا دروازہ کھلا ہے۔ عدالت نے درخواست نمٹا دی۔