ضروی نہیں عدالت کا ہر فیصلہ ہر شخص کو پسند آئے ‘ نامزد چیف جسٹس انور ظہیر جمالی

بدھ 9 ستمبر 2015 13:45

ضروی نہیں عدالت کا ہر فیصلہ ہر شخص کو پسند آئے ‘ نامزد چیف جسٹس انور ..

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 09 ستمبر۔2015ء) سپریم کورٹ آف پاکستان کے نامزد چیف جسٹس ‘ مسٹر جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا ہے کہ ضروی نہیں کہ عدالت کا ہر فیصلہ ہر شخص کو پسند آئے ‘مقدمات کی غیر ضروری طوالت اور فیصلوں میں تاخیر عام سائلان اور فریقین مقدمہ کیلئے تکلیف کا باعث ہے ‘ شکایات کے ازالہ کیلئے وکلاء برادری سے ملکر لائحہ تربیت دینگے ‘ قانون کی حکمرانی کے قیام کے سلسلے میں جسٹس جوادا یس خواجہ کی طرف سے دکھائی جانے والی جرات اور کھرے پن کو تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائیگا۔

بدھ کو فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے نامزد چیف جسٹس نے کہاکہ آج ہم یہاں اپنے سینئررفیق کار جسٹس جواد ایس خواجہ صاحب، چیف جسٹس آف پاکستان کو ان کی بطور جج اور چیف جسٹس مدت منصبی کے اختتام کے موقع پر خراج تحسین پیش کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں جو کہ آج اپنے فرائض منصبی سے عہدہ برآ ہو رہے ہیں۔

(جاری ہے)

ایک ایسی نشست سے خطاب کرنا میرے لیے فخر اورا عزاز کی بات ہے جہاں شعبہ ء قانون و انصاف سے تعلق رکھنے والے معروف افراد موجود ہیں ۔

ان تمام افراد کا یہاں پر موجود ہونا ان کی جناب چیف جسٹس خواجہ صاحب کے ساتھ محبت اور دلی لگاؤ کی نشاندہی کرتا ہے۔انہوں نے کہاکہ خواجہ صاحب سے میری پہلی ملاقات 3اگست 2009ء کو میرے بطور جج عدالتِ عظمیٰ تعیناتی کے وقت ہوئی تھی اور اس طرح مجھے اِن کے ساتھ 6سال سے زائد مدت بطور رفیقِ کار کام کرنے کا موقع ملا۔ اس تمام عرصے میں میں نے انہیں انتہائی شریف النفس اور ملن سار پایا۔

میں یہ بات کہنے میں فخر محسوس کرتا ہوں کہ جسٹس جواد ایس خواجہ ایک ہمہ جہت شخصیت اور بے پنا ہ خداداد صلاحیتوں کے مالک ہیں اوربطور جج انہوں نے اپنی قانونی فہم وفراست ،سوچ و فکر اور تجربہ کو ملک کے اندر قانون کی حکمررانی کی ترویج کے لیے بھرپور انداز میں استعمال کیا

۔جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہاکہ اس طرح کی تقریب میں یہ روایت ہے کہ فاضل جج صاحب کی پیشہ ورانہ زندگی کو تفصیل سے بیان کیا جاتا ہے مگر چونکہ دیگر مقررین اس پہلو پر سَیرحاصل روشنی ڈال چکے ہیں اس لیے میں صرف مختصراً بیان کروں گا۔

خواجہ صاحب بطور وکیل اور جج چار دہائیوں سے قانون کے شعبے سے منسلک رہے ہیں۔ آپ 10 ستمبر1950کو وزیر آباد ضلع گوجرانوالہ میں پیدا ہوئے ۔آپ نے پنجاب یونیورسٹی سے1973 میں ایل۔ ایل۔ بی ۔ کا امتحان پاس کیا اور 1975 میں یونیورسٹی آف کیلی فورنیا سے ایل۔ ایل ایم ۔کرنے کے بعد بطور وکیل قانون کے شعبے سے منسلک ہو گئے۔ دو دھائیوں سے زیادہ عرصہ تک وکالت کے شعبہ سے منسلک رہنے کے بعد آپ کے عدالتی کیرئیر کا آغاز 1999 میں بطور جج لاہورہائی کورٹ ہوا۔

آپ مارچ2007 تک اسی عہدے پر فائز رہے۔ 2007 کے غیر آئنی اقدام کی مخالفت کرتے ہوئے آپ 19 مارچ 2007 کو اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے۔ 2007 سے 2009 تک درس و تدریس کے شعبے سے منسلک رہے ۔آپ کی بطور جج ہائی کورٹ گراں قدر خدمات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے جون 2009 میںآ پ کو بطور جج عدالت عظمیٰ تعینات کردیا گیا۔ بلآ خر 17 اگست کوآپ نے بحیثیت سینئر ترین جج چیف جسٹس آف پاکستان کا منصب سنبھالا اور یوں آج مورخہ 9 ستمبر 2015 کو اس اعلیٰ ترین منصب کی آئینی مدت کی تکمیل کے بعد ہم سے رخصت ہو رہے ہیں ۔

اگرچہ جناب خواجہ صاحب بطور جج ہم سے رخصت ہو رہے ہیں مگر وہ ہمیشہ ایک عظیم قانون دان، مفکر اور قانون و انصاف کے محافظ کے طور پر یاد رکھے جائیں گے۔ آپ نے اپنے طور پر قانون کی حکمرانی اور آئین کے تحفظ کے لیے عدالت کے کردار کو وسعت دی اور آئنی انحراف کی افسوس ناک روایت کے اختتا م میں اپنا مثبت کردار ادا کیا۔ انہوں نے اپنے فیصلوں کے ذریعے عوام میں جمہوری روایات اور بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کے بارے میں شعور کو اجاگر کیا۔

عوامی فلاح و بہبود ، قانون کی حکمرانی اور عدلیہ کی آزادی کے لیے کی گئی ان کی کاوشوں کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔یہ بات عام فہم ہے کہ کوئی بھی جج اپنے فیصلوں سے پہچانا جاتا ہے خواجہ صاحب کے فیصلے ان کی قانونی سوجھ بوجھ، وسعت ِعلم اور سوچ کی گہرائی کے حقیقی مظہر ہیں۔ میں یہاں یہ کہنا چاہوں گاکہ شائد ہی کوئی ایسا قانونی شعبہ ہو جس کی انہوں نے قانون اور آئین کو ملوظِ خاطر رکھتے ہوئے بدلتی ہوئی انسانی اور معاشرتی ضروریات کے مطابق تشریح نہ کی ہو۔

خاص طور پراختیارات کے ناجائز استعمال اور پسماندہ طبقات کے حقوق کے تحفظ کے سلسلے میں دیے جانے والے ان کے فیصلوں نے عدالتی تاریخ کے درخشندہ ستاروں میں اضافہ کیا۔خواجہ صاحب نے بطور جج جو خدمات سرانجام دی ہیں ان کو مختصر وقت میں بیان کرنا ممکن نہیں۔آپ بہت سے اہم آئینی معاملات کا فیصلہ کرنے والے بینچوں کا حصہ رہے جن میں 2007 کا پی سی او کیس،این آر او کیس، پی سی او نظر ثانی کیس ، توہین عدالت قانون کا کیس ، وغیرہ شامل ہیں اس کے علاوہ چند فیصلے جن کا تذکرہ کرنا میں ضروری سمجھتا ہوں ان میں لاکھڑا پاور پلانٹ کی نج کاری کا کیس،ایل پی جی کشیدگی پلانٹ کا معاہدہ ، تیل کی تلاش کرنے والی کمپنیوں سے سوشل ویلفئر فنڈ کی وصولی کا کیس اور موبائل فون لائسنس کیس شامل ہیں۔

اس کے علاوہ خواجہ صاحب نے قانون کی دیگر برانچوں میں بھی قابل قدر فیصلے صادر کیے ہیں جیسا کہ سی۔وی۔لیمن بے کے کیس میں انہوں نے Admirality کے مقدمہ میں قرار دیا کہ کسی ثانوی کمپنی کو مدعا علیہ نہ بنانے سے مقدمہ میں جاری in personam ڈگری غیر موثر نہیں ہوتی ، فیض اللہ کے کیس میں انہوں نے قرار دیا کہ جب کسی مقدمہ میں پیش کردہ شہادت جرم کو ثابت کرنے کے لیے ناکافی ہو تو دفعہ 164 ضابطہ فوجداری کے بیان میں کیے گئے اعتراف جرم سے مقدمہ پر فرق نہیں پڑتا ۔

مسعود احمد بھٹی کے کیس میں انہوں نے قرار دیا کہ وہ ملازم جو یکم جنوری 1996 کو ٹرانسفر ہوکر پی سی ایل میں میں آئے تھے ان پر سابقہ قوانین کا اطلاق ہوگا اور کارپوریشن صرف ایسے قوانین بنا سکتی ہے جو سابقہ قوانین میں دیے گئے فوائد سے زیادہ فوائد دیتے ہوں۔ یقینا خواجہ صاحب کے فیصلے مستقبل میں وکلاء اور جج صاحبان کے لیے مشعل راہ رہیں گے۔

قائد اعظم کا فرمان ہے کام ، کام اور کام۔ اور یہ خصوصیت خواجہ صاحب میں بدرجہء اتم موجود رہی ہے۔ آپ نے ہمیشہ اپنے آپ کو کام کے لیے وقف کیے رکھا ۔ ہم نے انہیں نہ صرف عدالت کے اندر بلکہ عدالت سے باہر بھی ہمیشہ کام میں مشغول دیکھا ہے۔آپ ہمیشہ عدالتی وقت شروع ہونے سے بہت پہلے اپنے دفتر میں موجود ہوتے اور عدالتی امور کی تیاری میں مصرف رہتے۔

اسی طرح وہ عدالت میں بھی دیر تک مقدمات کی سماعت میں مصروف رہتے ۔ان کی عدالت میں ہمیشہ تمام مقدمات کو نہ صرف سنا جاتا بلکہ ان پر موزوں فیصلہ بھی صادر کیا جاتا ۔ مسلسل اور طویل وقت کام میں مصروف رہنے کے باوجود ہم نے کبھی انہیں تھکا ہوا محسوس نہیں کیا۔ وہ ہمیشہ اسی جان فشانی اور لگن کے ساتھ کام میں مصروف رہتے اور کسی بھی نئی ذمہ داری کو سر انجام دینے کے لیے ہمہ وقت تیا ررہتے۔

انہوں نے کہاکہ یہ ضروی نہیں کہ عدالت کا ہر فیصلہ ہر شخص کو پسند آئے۔

عدالتی فیصلوں کے بارے میں ہر شخص آئین و قانون کی مقرر کردہ حدود میں رہتے ہوئے آزادانہ رائے رکھنے اور اس کا اظہار کرنے کا حق رکھتا ہے۔ اسی اصول کے تحت لوگ عدالت کے فیصلوں پر تنقید و تعریف کرتے نظر آتے ہیں۔ جناب جسٹس خواجہ صاحب کے فیصلوں کو بھی اس سے استثناء نہ تھا نہ ہوگا۔

ہم تمام جج اس پہلو سے ہمہ وقت آگاہ رہتے ہیں۔ اور رہنا بھی چاہیے۔ عدلیہ کے فیصلوں پرعوامی رائے کا اظہار کا حق یقینا جج کو اپنی بھر پور صلاحیت وقابلیت کے استعمال کا موقع فراہم کرتا ہے۔ اور وہ اس سعی میں مصروف نظر آتا ہے کہ بہتر سے بہتر فیصلہ صادر کرے۔ اور اس حوالے سے اپنی پسند نا پسند کو یکسر نظر انداز کرکے تمام مقدمات کو واقعات اور آئنی وقانونی تقاضو ں کے مطابق میرٹ پرنمٹایا جائے۔

جیسا کہ آپ جانتے ہیں، سپریم کورٹ ایک ایسا ادارہ ہے جہاں پر 17ججوں پر انصاف کی فراہمی کی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ یہ تمام جج اپنے علم اور وسیع تجربہ کی بنیاد پر قانونی امور میں ماہر ہوتے ہیں ۔ ان میں سے ہر ایک اپنا اپنا مختلف نقطہٴ نظر رکھتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی بھی مقدمہ میں جب کوئی فیصلہ صادر کیا جاتا ہے تو چاہے یہ متفقہ فیصلہ ہو یا اختلافی فیصلہ ہو وہ اپنا اپنا نقطہ نظر بیان کرنے سے نہیں ہچکچاتے۔

اس طرح قانون کی نئی نئی تشریحات دیکھنے کو ملتی ہیں اور نظام انصاف ترقی کی نئی منازل کی طرف گامزن رہتا ہے۔آج نظام انصاف کو بہت سے چیلنجوں کا سامنا ہے۔ ان میں سے سب سے اہم مقدمات کی غیر ضروری طوالت اور فیصلوں میں تاخیر ہے جو کہ عام سائلان اور فریقین مقدمہ کے لیے تکلیف کا باعث ہے۔ اس سلسلے میں ماضی میں کئی مثبت اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔

مستقبل میں بھی اس میں بہتری لانے کی کوشش جار ی رکھی جائے گی۔ اس سلسلے میں وکلاء برادری کی مشاورت سے ایسا لائحہ عمل ترتیب دیا جائے گا تاکہ ان مشکلا ت کا ازالہ کیا جا سکے۔انہوں نے کہاکہ خواجہ صاحب ایک درویش طبع انسان ہیں۔ جو تصوف سے خصوصی شغف رکھتے ہیں اور جب بھی موقع ملے صوفیاء کرام کے مزارات پر حاضری اپنے معمولات میں شامل رکھتے ہیں۔

وہ جلال الدین رومی سے خصوصی عقیدت رکھتے ہیں اور رومی کے ارشادات اور شاعری اکثر خواجہ صاحب کے بیان حتیٰ کہ عدالتی فیصلوں میں بھی دکھائی دیتی ہے۔ آپ نے اپنے ایک حالیہ فیصلے میں رومی کا ایک مصرع اس طرح نقل کیا ہے۔
آب در کوزہ من تشنہ دہن می گردم
انہوں نے کہاکہ اسی طرح آپ نے پی سی بی نظر ثانی کیس میں حافظ شیرازی کو درج ذیل اقتباس میں نقل کیا:
"ان کی یہ سوچ، جو شاید ان کے لیے عجیب نہ ہو، حافظ کے اہم مصرعے سے بیان ہو سکتی ہے:
فِکر ہر کس بقدر ہمتِ اُوست
حافظ نے انسانی ظرف اور نفس کا بخوبی ادراک کرتے ہوئے عیاں کیا کہ خالص ذاتی احساسات ہی ہر شخص کی سوچ اور فکر کی بنیاد ہوتے ہیں، تاہم قانون اور عدالتیں کسی ذاتی رائے یا احساسات کی بنیاد پر تعصب کا تعین نہیں کرتیں بلکہ معروضی حقائق و شواہد اور مجموعی معاشرتی اقدار کو تعصب کے تعین کا پیمانہ سمجھتی ہیں۔

جیسا کہ پہلے کہا گیا ہے کہ عدالتوں کو اپنے معروضی معیاروں کو ملحوظ رکھ کر مقدموں کی سماعت کرنا ہوتی ہے نہ کہ بے بنیاد آراء یا واہموں اور وسوسوں کی حدوں کو چھوتے ہوئے تاثرات کی بنیاد پر ۔انہوں نے کہاکہ میری ذاتی رائے میں خواجہ صاحب کی سوچ اور خیالات میں حضرت علامہ اقبال کی "خودی" کے فلسفے کی ایک جھلک نظر آتی ہے اس کے علاوہ آپ قومی زبان کی ترقی و ترویج، جو کہ ہماری آئینی ذمہ داری ہے ،کے بھی داعی ہیں۔

مثبت سوچ اور پُرامیدی آپ کی شخصیت کا ایک اور خاصا ہے جو کہ قابلِ ستائش ہے۔زندگی کے ہر شعبے میں انسان کو ایک نہ ایک دن اپنے منصب کی مدت کی تکمیل کے بعد رخصت ہونا ہوتا ہے۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے پیچھے کیسی یادیں چھوڑ کر جا رہا ہے۔ اگرچہ خواجہ صاحب آج ہم سے بطور جج رخصت ہو رہے ہیں مگر اپنے پیچھے اچھا نام اور خوشگوار یادیں چھوڑ کر جا رہے ہیں۔

کسی بھی جج صاحب کی رٹائرمنٹ کے موقع پر ہونے والا فل کورٹ ریفرنس ایک قسم کا اُس جج کے احتساب کا دِن بھی ہوتا ہے ۔ عمومی طور پر اِس دن بار کے نمائندگان کو اُس جج کی کارکردگی پر کھل کر رائے زنی کا موقع ملتا ہے اس بات کا ہم تمام جج صاحبان کو اپنے فرائض ِمنصبی کی انجام دہی کے دوران احساس رہتا ہے کہ ہم نے بھی بلا آخر ایک دِن اس مرحلے سے گزرنا ہے یہ امر بھی ایک بہتر فیصلہ کرنے میں کردار ادا کرتا ہے۔

انہوں نے کہاکہ آخر میں میں یہ کہنا چاہوں گا کہ ریٹائرمنٹ پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کے اختتام کا نام ہے۔ یہ انسان کو اپنی پیشہ وارانہ زندگی پر نظر دوڑانے اور انجام دیئے گئے امور سے مطمئن ہونے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ اس سے انسان کو ایسے تمام امور انجام دینے کا بھی موقع ملتا ہے جو وہ اپنی پیشہ وارانہ مصروفیات کی وجہ سے انجام دینے سے قاصر رہتا ہے۔

یوں انسان کو اپنے رشتہ داروں کے ساتھ وقت گزارنے کا موقع بھی میسر آتا ہے اور اپنی طبع کے مطابق اپنا وقت گزار سکتا ہے۔ قانون کی حکمرانی کے قیام کے سلسلے میں خواجہ صاحب کی طرف سے دکھائی جانے والی جرات اور کھرے پن کو تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ ان کا شمار ہمیشہ ان جج حضرات میں ہو گا جنہوں نے طاقت ور طبقات کی جانب سے کی جانے والی معاشرتی ناانصافیوں کے خاتمے کیلئے اپنا بھر پور کردا ر ادا کیا۔ اور انصاف کی فراہمی کے لیے ہر ممکن کوشش سر انجام دی۔ان الفاظ کے ساتھ میں اپنی طرف سے اور اپنے رفقاء کار کی طرف سے خواجہ صاحب کو الوداع کہتا ہوں۔ اور دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ انہیں خوشیوں اور صحت سے بھر پور طویل عمر عطا فرمائے۔آمین!
آپ سب کا بہت بہت شکریہ۔

متعلقہ عنوان :