کراچی آپریشن کے 2سال ،قانون نافذ کرنیوالے اداروں کا شہر میں جرائم پیشہ عناصر کی کمر توڑ نے کا دعویٰ

کچھ جماعتوں کے سلیپر سیل اب بھی کام کررہے ہیں ، حالات اس نہج پر پہنچ گئے کہ سکیورٹی اداروں کیلئے واپسی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا،،مشتاق مہر کراچی آپریشن سے جرائم میں 65سے 70فیصد کمی آئی، آپریشن مکمل ہونے میں 35فیصد کام باقی ہے،74فیصد شہری آپریشن سے مطمئن ہیں ملزمان کی پشت پناہی کرنیوالی بااثر شخصیات کیخلاف شواہد ملنے پر کارروائی کی جائیگی،فرار ملزمان کی واپسی کیلئے انٹرپول کی مدد لینگے، اے آئی جی کراچی آپریشن کا مقصد شہریوں کی جان کی حفاظت ،جرائم کا خاتمہ تھا، مشترکہ طور پر 2سال میں بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں،کرنل امجد قومی اثاثوں کے نقصان کی روک تھام کیلئے بھی آپریشن شروع کیا گیا،آپریشن کے دوران رینجرز کے 27جوان بھی شہید ہوئے،سیکٹرکمانڈر رینجرز کی تاجروں اور اے آئی جی کے ہمراہ پریس کانفرنس

ہفتہ 5 ستمبر 2015 18:29

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 05 ستمبر۔2015ء) کراچی آپریشن کے دو سال مکمل ہوگئے ہیں ۔قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مطابق شہر میں جرائم پیشہ عناصر کی کمر توڑ دی گئی ہے لیکن کچھ جماعتوں کے سلیپر سیل اب بھی کام کررہے ہیں ۔ ریاست کے حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے واپسی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔کراچی آپریشن سے جرائم میں 65 سے 70 فیصد کمی آئی، آپریشن مکمل ہونے میں 35 فیصد کام باقی ہے۔

دوسری جانب گیلپ سروے کے مطابق 74فیصد شہری کراچی آپریشن سے مطمئن ہیں ۔جرم کرنے والے اور ان کے سہولت کاروں کو کسی صورت بھی نہیں چھوڑا جائے گا ۔ پولیس میں احتساب کا عمل شروع کردیا گیا ہے، ایک ہزار کے قریب اہلکاروں کو بلیک لسٹ کردیا گیا ہے۔

(جاری ہے)

ہائی پروفائل کیسز فوجی عدالتوں میں بھیجیں گے۔ملزمان کی پشت پناہی کرنے والی بااثر شخصیات کے خلاف شواہد ملنے پر کارروائی کی جائے گی ۔

ملک سے فرار ہونے والے بااثر افراد کو واپس لانے کے لیے انٹرپول سے رابطہ کیا جائے گا ۔ہفتہ کو ایڈیشنل آئی جی کراچی مشتاق مہر اور سیکٹر کمانڈر رینجرز کرنل امجد کی جانب سے کراچی آپریشن کے دو سال مکمل ہونے پرصحافیوں کو بریفنگ دی گئی ۔ایڈیشنل آئی جی کراچی مشتاق مہر نے کہا شہرمیں قیام امن کے لیے 5ستمبر2013 کو آپریشن شروع کیا گیا، آپریشن سے جرائم میں 65 سے 70 فیصد کمی آئی، آپریشن مکمل ہونے میں 35 فیصد کام باقی ہے، 2 سال میں 3 ہزار 500 پولیس مقابلے ہوئے جس میں 250 سے زائد پولیس افسران اوراہلکار شہید ہوئے، 2 سال کے دوران 343 بھتا خوروں کو گرفتار جب کہ 15 ہزار 400 غیرقانونی ہتھیاربرآمد کیے گئے، آپریشن کے دوران کی گئی مختلف کارروائیوں میں 500 کلو سے زائد بارودی مواد کے علاوہ 17خودکش جیکٹس بھی برآمد کی گئیں۔

انہوں نے بتایا کہ کہ آپریشن سے قبل تقریبا 8 لوگ روزانہ ٹارگٹ کلنگ میں مارے جاتے تھے، آپریشن کے نتیجے میں دہشت گردی کے واقعات میں 70 فیصد تک کمی ہوگئی ہے لیکن اب بھی کچھ تنظیموں کے سلیپرسیل کام کررہے ہیں جنہیں جلد ختم کردیں گے، انہوں نے کہا کہ اسٹریٹ کرائمز بھی 50 فیصد کم ہوگئے تاہم اس پر قابو پانا ایک بڑا چیلنج ہے، کراچی سی پی ایل سی کے تعاون سے اسٹریٹ کرائم کے خلاف کام کر رہے ہیں، موبائل فون چھیننے یا چوری کے واقعات کی روک تھام کے لیے اسپیشل سیل قائم کیا گیا ہے۔

ایڈیشنل آئی جی نے کہا کہ کراچی پولیس میں ای ٹیکنالوجی لارہے ہیں، مجرموں کے ریکارڈ کو کمپیوٹرائزڈ کیا جارہاہے، تمام صنعتی ایسوسی ایشن کے تعاون سے کمیونٹی پولیسنگ سسٹم کو بہتربنائیں گے، نجی سیکیورٹی کمپنیز اور گارڈزکے ریکارڈ کوبائیومیٹرک کے ذریعے تصدیق کرائی جائے گی،اس کے علاوہ 6 ماہ میں اسلحے کی دکانوں کا ریکارڈ بھی کمپیوٹرائزڈ کروالیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ یہ اصلاحات پورے صوبے میں کی جائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ پولیس میں احتساب کا عمل شروع کردیا گیا ہے، ایک ہزار کے قریب اہلکاروں کو بلیک لسٹ کردیا گیا ہے جنہیں کسی بھی اہم ذمہ داری پر تعینات نہیں کیا جائے گا ۔انہوں نے کاہ کہ حکومت کو لکھا ہے کہ انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں اضافہ کیا جائے، اس کے علاوہ ہائی پروفائل کیسز فوجی عدالتوں میں بھیجیں گے۔

انہوں نے کہا کہ شہر کے 35حساس مقامات پر سی سی ٹی وی کیمرے اور سرچ لائنٹس لگائی جارہی ہیں ۔جبکہ شہریوں کی مدد سے چوکیاں قائم کی جائیں گی جنہیں پولیس کے ریڈیو اسٹیشن وائس آف کراچی سے منسلگ کیا جائے گا،سول سوسائٹی کے ساتھ مل کر چھینے گئے موبائل فونز کی ٹریکنگ کا نظام بھی مرتب کیا جارہا ہے ۔انہوں نے کہا کہ کاٹی کے تعاون سے نیبرہڈ سسٹم متعارف کرایا جارہا ہے جسے شہریوں کی عام آبادی تک توسیع دی جائے گی ۔

قانون نافذ کرنے والے اداروں ،غیر سرکاری تنظیموں اور شہریوں کے ساتھ رابطوں کو مضبوط بنایا جائے گا ۔انہوں نے کہا کہ ریاست کے حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے واپسی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔انہوں نے کہا کہ جرائم پیشہ افراد کے خلاف کراچی آپریشن میں مزید بہتری نظر آئے گی ۔انہوں نے کہا کہ پولیس اہلکاروں کے قتل ،وکلاء کی ٹارگٹ کلنگ اور ایم کیو ایم کے رہنما رشید گوڈیل کے حملے کی کیس تحقیقات جاری ہیں ۔

ملزمان کو جلد گرفتار کرلیا جائے گا ۔انہوں نے کہا کہ سنگین جرائم میں ملوث 90فیصد ملزمان جیلوں میں ہیں جبکہ معمولی جرائم میں ملوث ملزمان کی ضمانت ہوجاتی ہے یہ پراسیکیوشن کا معاملہ ہے ۔اس موقع پر سیکٹر کمانڈر سندھ رینجرز کرنل محمد امجد نے کہا کہ آپریشن شروع کرنے کا مقصد شہریوں کی جان کی حفاظت اور جرائم کا خاتمہ تھا۔ کراچی میں رینجرزاور پولیس نے مشترکہ طور پر 2 سال میں بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔

آپریشن کے باعث بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ میں 60 سے 70 فیصد کمی ہوئی ہے، کراچی آپریشن سے سب لوگ خوش ہیں اور اسے جاری رکھنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔کرنل امجد نے کہا کہ 2 برسوں میں کالعدم تنظیموں، سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگز اور گینگ وار کے جرائم پیشہ افراد کے خلاف بھرپور کارروائیاں کی گئیں، قومی اثاثوں کے نقصان کی روک تھام کے لیے بھی آپریشن شروع کیا گیا،آپریشن کے دوران رینجرز کے 27جوان بھی شہید ہوئے، گزشتہ 2 برسوں کے دوران رینجرز نے شہر میں 6 ہزار 81 آپریشن کیے، جس میں 913 دہشت گردوں, 550سے زائد ٹارگٹ کلرزاور 347بھتہ خوروں کو گرفتارکیا گیا، اس کے علاوہ 6ہزار سے زائد مختلف اقسام کا اسلحہ بھی دہشت گردوں سے برآمد کیا گیا،رینجرز نے 4032ملزمان کو گرفتار کیا جن میں سے 3500کو پولیس کے حوالے کیا گیا ۔

انہوں نے کہا کہ رینجرز کا پولیس کے ساتھ تعاون آگے بھی جاری رہے گا۔آپریشن کے دوران پولیس ،انٹیلی جنس ،شہریوں اورمیڈیا کا کردار مثبت رہا ۔سی پی ایل سی کے چیف زبیر حبیب نے کہا کہ کراچی میں جرائم کی وارداتوں میں بہت کمی ہوئی ہے ۔کراچی آپریشن میں پولیس جس عزم کا مظاہرہ کررہی ہے وہ ماضی میں کبھی دیکھنے میں نہیں آیا ۔سی پی ایل سی اور پولیس مل کر نیبر ہڈ منصوبے پر کام کررہے ہیں جس میں عوام اپنی مدد آپ کے تحت جرائم کے خاتمے کے لیے اپنا کردار ادا کرسکیں گے ۔

انہوں شہریوں کی اپیل کی کہ جرائم کی شکایات کو بروقت درج کرائیں تاکہ شہر میں ہونے والے جرائم کا احاطہ کیا جاسکے ۔معروف تاجر رہنما سراج قاسم تیلی نے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے شہر میں امن قائم کرنے کے لیے کوششیں کررہے ہیں ۔کراچی آپریشن رکنا نہیں چاہیے ۔اگر کراچی آپریشن روک دیا گیا تو صورت حال پہلے سے زیادہ گمبھیر ہوجائے گی ۔

گزشتہ دو سال میں بہتر کام ہوا ہے ۔تاہم ابھی بھی 50فیصد کام ہونا باقی ہے ۔قانون نافذ کرنے والے ادارے جرائم کے خاتمے کے لیے ایسا منظم نظام ترتیب دیں جس سے افراد کے تبدیل ہونے کے باوجود اداروں کی پالیسی جاری رہے ۔انہوں نے کہا کہ میڈیا ملک کی بہتری کے لیے کام کرنے والوں کو اجاگر کریں جبکہ ملک دشمن عناصر کا چہرہ عوام کے سامنے لائیں ۔اس موقع کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر افتخار احمد وہرہ ،کاٹی کے صدر راشد احمد صدیقی ،آباد کے چیئرمین جنید اشرف تالو سمیت تاجرو صنعتکاروں کی ایک بڑی تعداد بھی موجود تھی ۔