اظہاروجوہ نوٹس،دفاع میں بیرسٹر علی ظفر ڈٹ گئے، 5 گھنٹے لگاتار دلائل

معاملہ پاکستان بار کونسل کی انضباطی کمیٹی کو ارسال کردیا جائے، لطیف آفریدی،علی ظفر غیر مشروط معافی مانگ لیں تو معاملہ حل ہوجائے،عدالت علی ظفرکا معافی مانگنے کی بجائے اپنی وکیل عاصمہ جہانگیر کی عدم موجودگی اور تمام تر ریکارڈ نہ ہونے کے باوجود اپنا دفاع خود کرنے کا فیصلہ چیف جسٹس جواد خواجہ کا آئین و قانون کا حوالہ ، جسٹس فائز عیسی صلح جوئی،جسٹس دوست محمدکی دلچسپ باتیں،فیصلہ محفوظ

جمعرات 3 ستمبر 2015 22:14

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 03 ستمبر۔2015ء) چیف جسٹس کو خط کیوں لکھا ؟ سپریم کورٹ میں اظہار وجوہ نوٹس کے دفاع میں بیرسٹر علی ظفر ڈٹ گئے ، پانچ گھنٹے سے زائد لگاتار دلائل ، عدالت نے لطیف آفریدی ، صدر سپریم کورٹ بار فضل حق عباسی کی جانب سے سماعت میں دس منٹ کا وقفہ کرنے اور علی ظفر کو تازہ دم ہونے سمیت تمام تر استدعا مسترد کردی ۔

چیف جسٹس جواد ایس خواجہ بار بار آئین و قانون کا حوالہ ، جسٹس فائز عیسی صلح جوئی کی باتیں اور جسٹس دوست محمد خان نے ماحول کو خوشگوار رکھنے کے لئے لگاتار دلچسپ باتیں سنا کر کمرہ کو کشت زعفران بناتے رہے۔ جمعرات کے روز چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت شروع کی تو اس دوران سینئر قانون دان لطیف آفریدی نے عدالت سے استدعا کی کہ اس معاملے کی سماعت کی بجائے اس مقدمے کو پاکستان بار کونسل کی انضباطی کمیٹی کو ارسال کردیا جائے جس پر عدالت نے کہا کہ آپ مشاورت کرلیں اگر علی ظفر غیر مشروط معافی مانگ لیں تو ممکن ہے کہ معاملہ حل ہوجائے اس دوران علی ظفر اور دیگر نے مشاورت کی مگر علی ظفر نے معافی مانگنے کی بجائے اپنی وکیلہ عاصمہ جہانگیر کی عدم موجودگی اور تمام تر ریکارڈ نہ ہونے کے باوجود اپنا دفاع خود کرنے کا فیصلہ کرلیا اور عدالت کو آگاہ کیا کہ وہ اپنا مقدمہ خود لڑیں گے اور دلائل دینگے اور یہ سب عدالت اس سے زبردستی کرا رہی ہے وہ تو چاہتے تھے کہ ان کی وکیل عاصمہ جہانگیر دلائل دیں مگر عدالت زبردستی اس کے دلائل اور جواب چاہتی ہے لہذا وہ اس کا جواب دینے کو تیار ہیں ۔

(جاری ہے)

جس پر لطیف آفریدی نے کہا کہ اس معاملے کو جمعہ تک ملتوی کردیں اس پر عدالت نے کہا کہ اب تک پانچ ماہ کا وقت دے چکے ہیں آج وقت نہیں دینگے اور علی ظفر کو دلائل دینا ہوں گے اور آج مکمل بھی کرنا ہوں گے جس پر بیرسٹر علی ظفر روسٹرم پر آگئے اور دلائل کا آغاز کیا اور کہا کہ عدالت ان کامعاملہ کہاں سے شروع کیا اس کے لئے انہیں ابتداء سے انتہا تک تمام تر حالات سے آگاہ کرنا ہوگا تو صبر سے کہانی سنیں ۔

معاملہ اس ازخود نوٹس سے شروع ہوا جس کو یہی عدالت پانچ جون 2013ء کو نمٹا چکی تھی اس مقدمے میں ان چیمبرز سماعت کی گئی اور معاملے میں عدالتی حکم پر عملدرآمد بارے جواب طلب کیا گیا اور اسی دوران فریقین نے جوابات دینا شروع کئے انہیں بھی بحریہ ٹاؤن کے وکیل کے طورپر جواب دینا تھا اس دوران عدالت نے کیس کی سماعت پچیس مارچ 2015ء تک ملتوی کی تو اس دوران انہوں نے 13مارچ 2015ء کو چیف جسٹس آف پا کستان ( اس وقت کے ) کو درخواست دی کہ انہوں نے بیرون ملک جانا ہے رخصت عنایت فرمائی جائے تو چیف جسٹس پاکستان نے ان کی درخواست پر اٹھارہ مارچ 2015ء کو جواب دیا اور ان کی درخواست منظور کرلی اور ان کو یکم مارچ 2015ء تک رخصت دے دی گئی اس دوران وہ ملک سے باہر چلے گئے ۔

ملک سے واپسی پر پتہ چلا کہ عدالت نے پچیس اور اکتیس مارچ 2015ء کو میرے التواء کی درخواست کے باوجود مقدمے کی سماعت کی اور ہدایات تک جاری کیں اکتیس مارچ کے دن جب مقدمے کی سماعت ہوئی تو عدالت کو پتہ چلا کہ اس مقدمے بارے ایک خبر بھی شائع ہوئی ہے جس پر پتہ چلا تھا کہ ان کے جونیرء راجہ ظفر الحق نے سپریم کورٹ میں پہلے التواء کی درخواست دائر کی بعدازاں انہوں نے چیف جسٹس کو خط تحریرکردیا یہ درست ہے کہ انہوں نے ان کے لیٹر پیڈ کو استعمال کیا انہوں نے نہ تو اپنے جونیئر کو درخواست لکھنے کا کہا تھا اور نہ ہی اس سلسلے میں کوئی ہدایات جاری کی تھی تاہم عدالت نے ان کو اس پاداش میں کہ انہوں نے خط لکھا تھا اس پراظہار وجوہ کا نوٹس دے دیا ۔

اس پر عدالت نے کہا کہ جب آپ کے سامنے پچیس مارچ 2015ء کے مقدمے کی سماعت ملتوی کردی گئی تھی تو آپ الگ سے نئی التواء کی درخواست بھی تو دائر کرسکتے تھے کیونکہ جس مقدمے میں جوڈیشل آرڈر جاری ہوجائے وہاں چیف جسٹس کا انتظامی حکم پر عمل کی ضرورت باقی نہیں رہتی اور درخواست گزار کو عدالتی تقرر کردیا تاریخ پر حاضر ہونا ہوتا ہے آپ نے اپنے جواب میں ایسی باتیں لکھیں جو ایک معزز جج کے براہ راست خلاف تھیں علی ظفر نے اظہار وجوہ کے تمام تر نکات کا جواب دیا پہلے عدالت نے سماعت ملتوی کرنے کی استدعا مسترد کی اور بعد ازاں علی ظفر نے کہا کہ وہ اب اپنے دلائل مکمل کئے بغیر روسٹرم سے الگ نہیں ہوسکتے جس پر عدالت نے کہا کہ آپ بار بار ایک ہی طرح کے دلائل دے رہے ہیں اس دوران جسٹس دوست محمد خان اپنے دور وکالت اور ہائی کورٹ میں بطور جج کے خدمات سرانجام دیتے وقت کئی اہم تجربات جودلچسپ بھی تھے بیان کئے اور علی ظفر سے کہا کہ آپ قواعد وضوابط کا خیال رکھتے ہوئے دلائل دیں کسی بھی جج نے وقت سے پہلے آپ کیخلاف ذہن نہیں بنایا ہے آپ پریشان نہ ہوں آپ کو انصاف دیا جائے گا جس پر علی ظفر نے کہا کہ آپ نے مجھے توہین عدالت کا نوٹس جاری کرنا ہو یا لائسنس معطل کرنا ہو تو کردیں وہ ہر طرح کے حالات کا سامنا کرنے کو تیار ہیں ۔

دوران دلائل انہوں نے عدالت سے استدعا کہ کہ انہیں قدرت کی طرف سے پکار آئی ہے انہیں کچھ وقت دے دیں جس پر عدالت نے اجازت دینے سے انکار کردیا اس دوران سینئر قانون دان بھی معاملہ کل تک ملتوی کرنے کی استدعا کرتے رہے اور دس منٹ کا وقفہ تک دینے کی استدعا کی جو عدالت نے مسترد کردیا آخر کار علی ظفر نے تقریباً شام چھ بجے کے قریب دلائل مکمل کئے اور آخری استدعا کی کہ ان کی وکیل عاصمہ جہانگیر کو آنے دیں ممکن ہے کہ وہ بھی دلائل دیں جس پر عدالت نے کہا کہ انصاف کے تقاضوں کو پورا کیا جائے گا اور فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے عدالت برخواست کردی

متعلقہ عنوان :