پبلک اکاونٹس کی ذیلی کمیٹی کا اجلاس، این آئی ایچ اور پی ایم آرسی میں مالی سال 1998/99کے دوران کروڑوں روپے کی بے ضابطگیوں کا انکشاف

جمعرات 3 ستمبر 2015 15:03

اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 03 ستمبر۔2015ء) پبلک اکاونٹس کی ذیلی کمیٹی نے کہا کہ وزارتوں کی تحلیل کے دوران اربوں روپے کی کرپشن کو چھپانے کے لیے فائلیں غائب کی گئیں، نیب ایف آئی اے اور دیگر متعلقہ ادارے سب بے بس نظر آرہے ہیں ۔ اداروں کی تحلیل ہمارے گلے کا عذاب بن گیا ہے ، کمیٹی میں انکشاف کیا گیا ہے کہ وزارت صحت کے ذیلی اداروں این آئی ایچ(نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ) اور پی ایم آرسی( پاکستان میڈیکل ریسرچ کونس) میں مالی سال 1998/99کے دوران کروڑوں روپے کی بے ضابطگیاں کی گئیں،پبلک اکاونٹس کی ذیلی کمیٹی کا اجلاس گزشتہ روز کنونئیر کمیٹی شاہدہ اختر کی زیر صدارت ہوا جس میں وزارت قومی صحت و خدمت کے مالی سال سال 1998/99کے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیا گیا،اجلاس میں آڈٹ حکام نے بتایا کہ1992-95میں جعلی دستخطوں کے ذریعے سٹور آٹیمز کی خریداری کا ٹینڈر جاری کر کے 3کروڑ روپے سے زائد کی بے ضابطگیاں کی گئیں ۔

(جاری ہے)

کمیٹی ممبر میاں عبدالمنا ن نے کہا کہ 1992میں تین کروڑ کی کرپشن آج کے تین ارب روپے کے برابر ہے اس وقت کے محکمے کے سربراہ کو بلایا جائے جس نے یہ سب کیا ہے ، نیب حکام نے کہا کہ یہ کیس نیب میں ہے لیکن اس کی پیروی نہیں کی جارہی ہے سیکرٹری صحت نے کہا کہ اس وقت محکمے کے سربراہ عبدالحمید راجپوت تھے وہ زندہ ہیں ان سے پوچھا جائے گا ، معاملہ عدالت میں چل رہا ہے جس پر کمیٹی ممبر میاں عبدالمنان نے کہا کہ ہمارے پاس ڈیروں پر چوری کے ملزم آتے ہیں جو صرف دو منٹ میں مان جاتے ہیں آپ ہمیں دیں دو منٹ میں ہم آپ کو بتا دیں گے کون جھوٹ بول رہا ہے کون سچ، جھوٹے کی آنکھیں ، چہرے کا رنگ دو منٹ میں بتا دیتا ہے ہم خطرنا ک نظر رکھتے ہیں ،آڈٹ حکام نے بتایا کہ وزارت صحت کے ماتحت آفیسر نے خوردنی تیل کی غیر منصفانہ تقسیم کی جس کیو جہ سے قومی خزانے کو 60لاکھ روپے کا نقصان ہو ا اس وقت اس پراجیکٹ کے ڈائریکٹرلیاقت علی بھٹو تھے جوا س کے ذمہ دارتھے جن کے خلاف کاروائی نہیں کی گئی یہ تیل نوزائیدہ بچوں اور حاملہ خواتین کے لیے تھا جو ان تک نہیں پہنچاجس پر سیکرٹری صحت نے کمیٹی کو بتایا کہ یہ سند ھ حکومت کا پراجیکٹ تھا اور ہمارے آفیسر کو ڈپیوٹیشن پر اس پراجیکٹ کا انچارج لگایا گیا تھا ، اس میں ہمارے محکمے کی کوئی کوتاہی نہیں ہے اور یہ وزارت تحلیل ہو گئی ہے

یہ پیر اہمارا نہیں بنتایہ تیل سندھ حکومت نے وصول کیا تھا لہذا یہ اسی کی ذمہ داری ہے اگر کمیٹی حکم دے تو ہم اس پر انکوائری کریں گے ، جس پر کمیٹی ممبر میاں عبدالمنان نے کہا کہ وزارتوں کے تحلیل کے دوران اربوں روپے کی کرپشن کو چھپانے کے لیے فائلیں غائب کی گئیں، نیب ایف آئی اے اور دیگر متعلقہ ادارے سب بے بس نظر آرہے ہیں ۔

اداروں کی تحلیل ہمارے گلے کا عذاب بن گیا ہے ،جو بھی ذمہ دار ہے اس کو بلایا جائے پیسے فائلیں نہیں بندے کھاتے ہیں ، ہم جس وزارت میں بھی جاتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہم قواعد کی پابندی کرتے ہیں اور جب ان کی آڈٹ رپورٹ آئیں گی تو ہم دیکھیں گے وہ کتنے قواعد کی پابندی کرتے تھے ۔ کمیٹی نے اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کی معاملے کی 30دنوں کے اندر رپورٹ فراہم کی جائے ، کمیٹی نے وزارت صحت کے افسران کی جانب سے غیر ملکی دوروں پر خرچ کی جانے والی خطیر رقم کی تفصیلات بھی 30یوم میں طلب کر لی ،اجلاس میں سیکرٹری صحت نے انکشاف کیا کہ پاکستانی ہیپاٹائیٹس کی میڈیسن 32ہزار روپے میں خرید کر امریکا میں 28000ڈالر( 28لاکھ روپے) میں فروخت کرتے ہیں ممبر کمیٹی میاں عبدالمنا ن کے استفسار پر سیکرٹری صحت نے بتایا کہ ہیپاٹائیٹس کے انجیکشن انٹرفرون کے بعد اب گولیاں بھی دستیاب ہیں "سوالڈی"نامی یہ دوائی دنیا بھر کے مقابلے میں پاکستان میں سستے داموں دستیاب ہے امریکا میں اس کی قیمت 28لاکھ روپے ہے جو ایک ماہ کا کورس ہے امریکا کی جلٹ نامی کمپنی یہ دوائی تیار کرتی ہے اور پاکستان میں اس کے 20 آوٹ لیٹس موجود ہیں پاکستان میں اس کی قیمت 323ڈالر بنتی تقریباً 32ہزار روپے میں دوائی ملتی ہے اس کے لیے ضرروی ہے کہ خالی ڈبہ جمع کروانے پر ہی اگلا کورس اور اگلی دوائی ملے گی کیونکہ پاکستا ن سے لوگ یہ دوائی لے جا کر امریکا میں مہنگے داموں فروخت کرتے ہیں جس کی روک تھام کے لیے ایسا کیا گیا ہے ، جلٹ کمپنی اپنے ہی امپورٹرز کو پاکستان میں یہ دوائی امپورٹ کرتی ہے یہ میجک ڈرگ ہے ، پاکستانی کمپنیوں نے یہ دوائی بنانے کے لیے رابطہ کیا ہے اب تک اس حوالے سے 100درخواستیں ہمیں موصول ہوئی ہیں جن میں سے چار کمپنیاں ایسی ہیں جو دوائی بنانے کے اہل ہیں ، پی ایم آر سی کے آڈٹ اعتراضات پر کمیٹی نے کہا کہ اگر ایک بندہ بے ضابطگی کرے تو پورے محکمے کے حالات خراب ہوجاتے ہیں اس لیے کوشش کی جا نی چاہیے کہ کوئی بے ضابطگی نہ ہو۔