سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کاوزارت تجارت کی کارکردگی پرعدم اطمینان کا اظہار ‘ متفقہ طور پر ٹریڈ قونصلرز کے عہدے ختم اور ٹریڈ دفاتر بند کرنے کی سفارش

ٹریڈ قونصلر کی تعیناتی سیاسی بنیادوں پر کرنا ، بغیر معیار اور تجربہ مخصوص ممالک میں بھیجنا ناجائز ہے،ٹریڈ قونصلر دفاتر سیاسی حکومتوں کے پروٹوکول دفاتر بن چکے ہیں، ملک کو بجائے زرمبادلہ بھجوانے اور ایکسپورٹ میں اضافے کا یہ دفاتر سبب بنے، ٹریڈ قونصلروں کی وجہ سے ملک کو زرمبادلہ کا نقصان ہورہا ہے، کمیٹی چیئرمین اور ارکان کا اظہار خیال

بدھ 2 ستمبر 2015 19:36

اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 02 ستمبر۔2015ء ) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے تجارت نے وزارت تجارت کی کارکردگی مکمل عدم اطمینان کا اظہار کردیا جبکہ متفقہ طور پر ٹریڈ قونصلرز کے عہدے ختم کرنے اور ٹریڈ دفاتر بند کرنے کی سفارش کر دی اور ٹریڈ قونصلر کی تعیناتی سیاسی بنیادوں پر کرنے اور بغیر معیار اور تجربہ مخصوص ممالک میں بھجنے کو ناجائز قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ ٹریڈ قونصلر دفاتر سیاسی حکومتوں کے پروٹوکول دفاتر بن چکے ہیں ملک کو بجائے زرمبادلہ بجھوانے اور ایکسپورٹ میں اضافے کا یہ دفاتر سبسب بنے ٹریڈ قونصلروں کی وجہ سے ملک کو زرمبادلہ کا نقصان ہورہا ہے۔

بدھ کوسینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے تجارت کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر شبلی فراز کی صدارت میں پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد میں منعقد ہوا جس میں سینیٹرز سلیم ایچ مانڈوی والا ، عثمان کاکٹر ، سیف اﷲ خان بنگش، مفتی عبدالستار، نسیمہ احسان ، روبینہ خالد، کے علاوہ سیکرٹر ی وزارت شہزاد ارباب ،ڈپٹی سیکرٹر ی وزارت شاہد لطیف ، ڈی جی ٹریڈ وقار احمد شاہ ، کے علاوہ اعلیٰ حکام نے شرکت کی ۔

(جاری ہے)

قائمہ کمیٹی نے وزارت تجارت کی کارکردگی مکمل عدم اطمینان کا اظہار کیا ۔ کمیٹی نے متفقہ طور پر ٹریڈ قونصلرز کے عہدے ختم کرنے اور ٹریڈ دفاتر بند کرنے کی سفارش کر دی ۔کمیٹی کے اجلاس میں ٹریڈ قونصلر کی تعیناتی سیاسی بنیادوں پر کرنے اور بغیر معیار اور تجربہ مخصوص ممالک میں بھجنے کو ناجائز قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ ٹریڈ قونصلر دفاتر سیاسی حکومتوں کے پروٹوکول دفاتر بن چکے ہیں ملک کو بجائے زرمبادلہ بجھوانے اور ایکسپورٹ میں اضافے کا یہ دفاتر سبسب بنے ٹریڈ قونصلروں کی وجہ سے ملک کو زرمبادلہ کا نقصان ہورہا ہے ۔

اجلاس میں سینیٹر سلیم ایچ مانڈوی والا کے اس سوال پر کہ کچھ ٹریڈ قونصلرز نے ملک میں واپس آنے سے انکار کرتے ہوئے عدالت سے حکم امتناہی لے لیا ہے جس پر انکشاف ہوا کہ وزارت نے عدالت سے حکم امتناہی واپس لینے کی اپیل کی ہے لیکن عدالت سے سماعت کی تاریخ نہیں مل رہی ۔ کمیٹی کے اجلاس میں برسلز ، نیویارک اور جنیوا میں کچھ دن قبل بجھوائے گئے ٹریڈ قونصلرز کے تجربے تعلیم کے حوالے سے وزارت کے حکام کوئی جواب نہ دے سکے ۔

چیئرمین کمیٹی سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ وزارت کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے ایکپسورٹس دن بدن کم ہو رہی ہیں افغان ٹریڈ 80 فیصد بھارت حاصل کر چکا ہے مشرق وسطیٰ یورپ اور امریکہ کے ساتھ تجارتی تعاون کم ہورہا ہے وزارت کی طرف سے نامکمل بریفنگ پیپر فراہم کرنے پر چیئرمین کمیٹی شدید برہم ہوئے اور کہا کہ ریاستی اداروں اوروزارتوں کو عداد وشمار کے ہیر پھیر سے نکل کر قومی سوچ اپنانی چاہیے ۔

سینیٹر سلیم ایچ مانڈوی والا نے کہا کہ ہماری ٹریڈ پالیسی سے ایکسپورٹس نہیں بڑھی تجارت میں ناکام ہیں کسی بھی ایکسپورٹرز یا ٹریڈ ز سے پوچھا جائے تو پالیسی کو مذاق قرار دے گا جی ایس ٹی پلس ملنے کے باوجود انجام یہ ہوا کہ ایکسپورٹس میں کمی آ گئی شوگر سٹیل گارمنٹس فیکٹریوں کے مالکان کے علاوہ تمام اسٹیک ہولڈرز رو رہے ہیں ایف ٹی اے کی رعاتوں سے بھی زراعت سٹیل شوگر کا بیڑہ غرق ہو گیا کچھ کو زیادہ تحفظ دینے کچھ کو پانچ فیصد ڈیوٹی سے تباہی آئی ۔

چیئرمین کمیٹی نے سوال اٹھایا کہ 2012,2015 کی پالیسی سے ٹارگٹ حاصل نہیں کیے جاسکتے کمیٹی کو وجوہات سے آگاہ کیا جائے ٹینکرز اور فریٹ کے علاوہ تمام منیوفیکچرز ہڑتال پر ہیں ایکسپورٹس بڑھانے کیلئے اقدامات نہیں اٹھائے جارہے اسلام آباد میں بیٹھ کر پالیسی بنانے کی بجائے تمام اسٹیک ہولڈرز کو آن بورڈ لیا جانا چاہیے جس پر ڈی جی نے اعتراف کیا کہ ایکسپورٹ نہیں بڑھا سکے تین سالہ ٹارگٹ حاصل نہیں ہوا 95 بلین ڈالر حاصل نہیں کر سکے ۔

چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ باہمی تجارتی کے ممالک کے ساتھ تجارت بڑھانے نئی بین الاقوامی مارکیٹیں تلاش کرنے وزارت میں کاربار دوست ماحول پیدا کرنے کے ویژن کی ضرورت ہے پاک چین اقتصادی راہدای کے بارے میں بھی ابہام ہے ایران کے ساتھ تعلقات بہتر نہیں افغانستان کے ساتھ تجارت ختم ہو رہی ہے ڈی جی نے آگاہ کیا کہ مصنوعات کے سٹینڈڈ اور کوالٹی انفراسٹرکچر بڑھانے کی کوشش کررہے ہیں جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ دوسرے ممالک کے ساتھ باہمی تعاون کے معاہدوں میں وزارت کے پاس ماہر تجارتی قانون دانوں کا فقدان ہے جس سے ملک کو نقصان ہوتا ہے اور کہا ک اتصلاحات کے معاہدے میں شریک لاء فرم کو بلیک لسٹ کر دینا چاہیے تھا جس کی وجہ سے پاکستان کے 8 سو ملین ڈالر پھنسے ہوئے ہیں ۔

سینیٹر عثمان کاکٹر نے کہا کہ ہر حکومت نے اپنے کارباری ساتھیوں کی خاطر ٹریڈ پالیسی بنائی سیاست کی بجائے ریاست کی پالیسی ہونی چاہیے اور ملک کے کم ترقی یافتہ علاقوں میں موجود قدرتی ذخائر معدنیات منرلز اورتمباکو کی ایکسپورٹ میں اضافہ کر کے زرمبادلہ میں اضافہ کیا جاسکتا ہے ہماری غلط پالیسی کی وجہ سے افغان ٹریڈ میں شامل ٹرانسپورٹ کے کاروبار کے وابستہ ہزاروں افراد ایرانی تجارت کی وجہ سے بے روزگار ہو گئے ہیں اور کہا کہ انڈس ہائی وے 15 سال سے جان بوجھ کر نہیں بنایا جارہا جس سے بلوچستان کے پھلوں اور معدنیات کی ایکسپورٹ نہیں ہورہی ۔

کمیٹی کے دوسرے منعقدہ اجلاس میں اسٹیٹ لائف انشورنس بیمعہ پالیسی ، کلیمز کی ادائیگی ، بجٹ کل حصص اور کارکردگی کے علاوہ ٹی ڈیپ کے معاملات زیر غور رہے کمیٹی کو آگاہ کیا گیا کہ انشورس ایکٹ کے تحت ایس ای سی پی ریگولیٹر ہے تکافل ، کھاد کے تھیلوں پر مائیکرو انشورنس کی نئی سکیمیں شروع کی جارہی ہیں باہر جانے والے پاکستانیوں کی گروپ انشورنس کی جاتی ہے نومبر2014 تک بورڈ مکمل نہ ہونے کی وجہ سے معاملات زیرالتواء رہے پی آئی بیز کی پیشکشیں خریدی گئی زیادہ منافع کی زیادہ بونس ادا کیا گیا ۔

بے نظیر انکم سپورٹ میں شوشل ہیلتھ انشورنس کیلئے الگ فنڈ فراہم کیا گیا ہے کویت اور سعودی عرب کے ساتھ انشورنس شراکت داری کیلئے مذاکرات جاری ہیں فوت ہونے والے بیمعہ کرانے والے کاغذات مکمل ہونے پر ہفتے میں کلیم ادا کر دیا جاتا ہے ۔سینیٹر سلیم ایچ مانڈوی والا نے حکومتی اداروں کی حکومتی سیکوریٹیز میں سرمایہ کاری کے حوالے سے کہا کہ اداروں کے ذمہ داران اس عمل سے کمائی کر رہے ہیں اور کہا کہ اسٹیٹ لائف انشورنس کو مزید آسان تر کیا جائے ۔

سینیٹر روبینہ خالد نے کہا کہ ایک ہفتے میں چیک ادا نہیں کیے جاتے اور کہا کہ کسی ایک بھی فوت ہونے والے شخص کے کلیم کی ادائیگی کا ثبوت پیش کیا جائے جس کا کوئی جواب نہیں دیا جس پر کمیٹی نے ادا کیے گئے تمام چیکوں کی تفصیل بمعہ پتہ اگلے اجلاس میں پیش کرنے کی ہدایت دی سینیٹر عثمان کاکٹر نے انکشاف کیا کہ بریفنگ پیپر میں کوئٹہ کو کراچی ریجن اور پشاور کو گجرات کے ساتھ شامل کیا گیا ہے او ر تجویز دی کہ لائف انشورنس صوبائی ریجن دفاتر قائم کرے اور کارپوریشن میں صوبائی کوٹہ پر بھرتیاں کی جائیں جس پر کمیٹی نے ہدایت دی کہ تمام حکومتی بمعہ اسٹیٹ لائف اداروں میں ہر صوبے سے ڈائریکٹر بورڈ کا ممبر ہو۔

سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے میڈیا رپورٹس کے حوالے سے سوال اٹھایا کہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک نے اسٹیٹ لائف کارپوریشن کی شفافیت کے حوالے سے اعتراضات اٹھائے ہیں جس پر آگاہ کیا گیا کہ ایس ای سی پی نے ریگولڑی اتھارٹی بنائی جس نے رپورٹ دی کہ کارپوریشن نے ایس ای سی پی سے احتجاج کیا ہے اور آگاہ کیا گیا کہ کارپوریشن کی بہتری کیلئے کلسنٹنٹ رکھا جائے گا تفتیش کاروں کی تربیت شروع کی جارہی ہے کمپیوٹرائیزنش شروع ہے ٹی ڈیپ کے سی ای او ایس ایم منیر نے آگاہ کیا کہ دو سابق سی ای او طارق پوری اور عابد جاوید گرفتار ہیں فریٹ سبسڈی ویئر ہاؤسز کی اجازت تھی لیکن بے نامی ویئر ہاؤسز کے نام پر کروڑوں کے چیک جاری ہوئے اور نیشنل بنک سے ادائیگیاں ہوتی رہی کمپنیاں موجود نہیں تھیں بے نامی چیک جاری ہوئے نیچے سے اوپر تک عملہ ملا ہوا تھا جس پر چیئرمین کمیٹی سلیم ایچ مانڈوی والا نے کہا کہ اتنا بڑا گھپلا ہو گیا وزارت کے سیکرٹری اور اعلیٰ افسران میں سے کسی نے نہیں دیکھا کمیٹی کو آگاہ کیا گیا کہ کل چار ارب 27 کروڑ کی رقم کی معاملہ تھا جس میں 50 کروڑ لیپس ہونے کی وجہ سے بچ گئے 25 کروڑ کی ریکوری کر لی گئی ہے اور انکشاف ہوا کہ ایک انکوائری میں 94 کروڑ روپے کی بدعنوانی کا پتہ چلا گیا ٹی ڈیپ کے افسران نے آگاہ کیا کہ کراچی ایکسپو میں 8 سو کاروباری افراد نے شرکت کی تین بلین ڈالر کے معاہدات ہوئے اور کمیٹی کو آگاہ کیا گیا کہ ٹی ڈیپ کا بجٹ ایک ارب30 کروڑ ہے جس میں سے 60 کروڑ انتظامی اخراجات ہیں بین الاقوامی نمائشوں میں پاکستانی مصنوعات کی مانگ بڑھ رہی ہے دوبئی کے 20 ٹونٹی میچ میں ہوٹلوں کے استعمال کی اشیاء کے پاکستان نے ایک ارب کے آرڈر حاصل کیے ۔

ٹی ڈیپ کے سربراہ نے کہا کہ ایکسپورٹ بڑھانے کیلئے بعض اقدامات ناگزیز ہو گئے ہیں اور اس سلسلے میں حکومت کو بھی آگاہ کر دیا گیا ہے انہوں نے کہا کہ بجلی گیس اور پانی کی عدم فراہمی کے باعث صنعتیں متاثر ہو رہی ہیں اگر ایکسپورٹس بڑھانی ہیں تو صنعت کے مسائل کا حل کرنا ہوگا ۔سیکرٹری وزارت تجارت نے بتایا کہ کابینہ نے ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دی ہے جو کہ اس صورتحال کا بغور جائزہ لے رہی ہے اور حکومت تمام مسائل سے بخوبی آگاہ ہے اور اس سلسلے میں مناسب حل نکالنے مشاورتوں کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ یہ صورتحال انتہائی اہمیت رکھتی ہے اور اس پر متعلقہ حکام سے وقتاًفوقتاً اپ ڈیٹ لی جائے گی ۔

متعلقہ عنوان :