پولیس میں بوگس بھرتیاں ہونا افسوسناک بات ہے ایسے تو دہشت گرد اور ’’را ‘‘کے ایجنٹ بھی بھرتی ہو سکتے ہیں‘ سپریم کورٹ

زنا، ڈکیتی اور دوسرے مقدمات میں ملوث لوگ پولیس میں کام کر رہے ہیں ایسے لوگوں کو پولیس سے نکالیں، محکمے میں اچھے لوگوں کی جانچ پڑتال کریں پولیس کا کام لوگوں کی حفاظت اور سکیورٹی کرنا ہے مگر یہ لوگ کسی بھی ضلع یا شہر میں تقرری کروا کر بم دھماکے اور قتل کر سکتے ہیں ڈی آئی جی عہدوں کے افسروں کا اپنا موڈ ہوتا ہے کوئی اہلکار 6ماہ سے غیر حاضر ہو تو پوچھتے نہیں، سیاسی لوگوں کے کہنے پر برطرف اہلکاروں کو بحال کر دیتے ہیں‘ جسٹس اعجاز احمد چوہدری کے ریمارکس جن لوگوں نے بوگس بھرتیاں کیں، ان لوگوں کو پوچھنے والا کوئی نہیں، لگتا ہے آپ بڑے پیٹی بھائیوں کو کچھ نہیں کہتے‘ عدالت کا آئی جی پنجاب سے استفسار دو رکنی بینچ نے لاہور، ملتان، راجن پورسمیت دیگر علاقوں میں بوگس دستاویزات پر بھرتی ہونے والے 62پولیس اہلکاروں کی بحالی کے عدالتی حکم کو معطل کر دیا،بوگس بھرتیوں کے حوالے سے کی جانیوالی انکوائریوں کی تفصیلات سے 15روز میں آگاہ کرنے کی ہدایت

منگل 1 ستمبر 2015 17:34

لاہور( اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ یکم ستمبر۔2015ء) سپریم کورٹ نے لاہور، ملتان، راجن پورسمیت دیگر علاقوں میں بوگس دستاویزات پر بھرتی ہونے والے 62پولیس اہلکاروں کی بحالی کے عدالتی حکم کو معطل کرتے ہوئے ریمارکس دیئے ہیں کہ یہ افسوسناک بات ہے کہ پولیس جیسی ڈسپلنری فورس میں ایسی بھرتیاں ہو رہی ہیں ایسے تو دہشت گرد اور ’’را ‘‘کے ایجنٹ بھی بھرتی ہو سکتے ہیں،پولیس کا کام لوگوں کی حفاظت اور سکیورٹی کرنا ہے مگر یہ لوگ کسی بھی ضلع یا شہر میں تقرری کروا کر بم دھماکے اور قتل کر سکتے ہیں،ڈی آئی جی عہدوں کے افسروں کا اپنا موڈ ہوتا ہے کوئی اہلکار 6ماہ سے غیر حاضر ہو تو پوچھتے نہیں، سیاسی لوگوں کے کہنے پر برطرف اہلکاروں کو بحال کر دیتے ہیں، ، زنا، ڈکیتی اور دوسرے مقدمات میں ملوث لوگ پولیس میں کام کر رہے ہیں ایسے لوگوں کو پولیس سے نکالیں، محکمے میں اچھے لوگوں کی جانچ پڑتال کریں ۔

(جاری ہے)

گزشتہ روز جسٹس اعجاز احمد چوہدری اور جسٹس عمر عطابندیال پر مشتمل دو رکنی بینچ نے سپریم کورٹ رجسٹری برانچ لاہور میں محکمہ پولیس میں بوگس بھرتیوں کے خلاف کیس کی سماعت کی ۔عدالتی حکم پر انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب مشتاق احمد سکھیرا اپنے دیگر اعلیٰ پولیس افسروں کے ہمراہ پیش ہوئے۔ دوران سماعت آئی جی پنجاب نے اعتراف کیا کہ کچھ انتظامی کوتاہیوں کی وجہ سے یہ افسوسناک واقعات رونما ہوئے ، کام کا بوجھ زیادہ تھا اس لئے مناسب نگرانی نہیں کی جا سکی۔

جس پر فاضل جسٹس اعجاز احمد چودھری نے ریمارکس دیئے کہ حیران کن بات ہے کہ کسی افسر نے یہ دیکھنے کی زحمت گوارہ نہیں کی کہ پولیس اہلکار کی بھرتی ہوئی بھی ہے یا نہیں، ایسے تو دہشت گرد اور ’’را ‘‘کے ایجنٹ بھی بھرتی ہو سکتے ہیں ، پولیس کا کام لوگوں کی حفاظت اور سکیورٹی کرنا ہے مگر یہ لوگ کسی بھی ضلع یا شہر میں تقرری کروا کر بم دھماکے اور قتل کر سکتے ہیں۔

فاضل عدالت نے پولیس کے اعلیٰ افسروں کے رویوں پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ڈی آئی جی عہدوں کے افسروں کا اپنا موڈ ہوتا ہے کوئی اہلکار 6ماہ سے غیر حاضر ہو تو پوچھتے نہیں، سیاسی لوگوں کے کہنے پر برطرف اہلکاروں کو بحال کر دیتے ہیں، ڈی آئی جی حضرات کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہے، زنا، ڈکیتی اور دوسرے مقدمات میں ملوث لوگ پولیس میں کام کر رہے ہیں۔

فاضل عدالت نے آئی جی پنجاب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ایسے لوگوں کو پولیس سے نکالیں اور محکمے میں اچھے لوگوں کی جانچ پڑتال کریں تا کہ عوام کا آپ لوگوں پر اعتماد بحال ہو جن لوگوں نے بوگس بھرتیاں کیں، ان لوگوں کو پوچھنے والا کوئی نہیں، لگتا ہے آپ بڑے پیٹی بھائیوں کو کچھ نہیں کہتے۔ جس پر آئی جی پنجاب نے بتایا کہ یہ افسوسناک بات ہے کہ ملتان اور دوسرے شہروں میں ایسی بھرتیاں ہوئیں، ان بھرتیوں کے حوالے سے انفرادی طور پر معاملات اعلیٰ افسروں کے علم میں آتے رہے جس پر کارروائیاں بھی کی گئیں مگر برطرف کئے جانے والے اہلکار عدالتوں میں چلے گئے اور حکم امتناعی حاصل کر لیا۔

آئی جی نے اعتراف کیا کہ ہم عدالتوں میں کیسوں کی صحیح پیروی نہیں کر سکتے۔ عدالت کو بتایا گیا کہ پنجاب میں 1لاکھ 80ہزار پولیس اہلکاروں کی نفری ہے ان کی سروس سے متعلق تمام معاملات مینوئل ہوتے تھے مگر اب کمپیوٹرائزیشن کا عمل مکمل کر لیا گیا اس حوالے سے ایک کمپنی کی خدمات بھی حاصل کی گئی ہیں اور آئندہ 4سے 6ماہ کے دوران پنجاب پولیس کا پورا نظام کمپیوٹرائزڈ ہو جائے گا جس کے نتیجے میں بوگس بھرتیاں اور ڈسپلن کی خلاف ورزی کرنے والے لوگوں کا آسانی سے پتہ چل سکے گا۔

فاضل جسٹس اعجاز احمد چودھری نے ریمارکس دیئے کہ پولیس ایک ڈسپلنری فورس ہے جس میں اچھے لوگ ہوں گے تو عوام کا پولیس پر اعتماد بحال ہو گا، جو لوگ کرپٹ اور ڈسپلن کی خلاف ورزی کرنے والے ہیں ان کو محکمے سے نکالیں۔فاضل عدالت نے بوگس بھرتیوں کے حوالے سے کی جانے والی انکوائریوں کی تفصیلات سے 15روز میں عدالت کو آگاہ کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے لاہور، ملتان، راجن پورسمیت دیگر علاقوں میں بوگس دستاویزات پر بھرتی ہونے والے 62پولیس اہلکاروں کی بحالی کے عدالتی حکم کو معطل کر دیا