رائس نے پاکستانی قیادت سے کہا ہے کہ انتہا پسند گروہوں سے نمٹنے کے لیے حکومتِ پاکستان کو مزید کام کرنا ہوگا،امریکہ

منگل 1 ستمبر 2015 11:40

واشنگٹن(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ یکم اپریل۔2015ء) امریکی قومی سلامتی کی مشیر سوزن رائس نے پاکستانی قیادت سے کہا ہے کہ انتہا پسند گروہوں سے نمٹنے کے لیے حکومتِ پاکستان کو مزید کام کرنا ہوگااور خبردار کیا ہے کہ افغانستان میں ہونے والے شدت پسند حملے امریکہ اور پاکستان کے مابین علاقائی اختلاف رائے کا ایک اہم نکتہ بن گئے ہیں۔وائٹ ہاوٴس کے ترجمان، جوش ارنیسٹ نے کہا کہ رائس نے اتوار کے روز پاکستان کے مختصر دورے میں اسلام آباد کے رہنماوٴں کومتعدد مواقع پر اِس بات کا اشارہ دیا کہ اِن گروہوں سے نبرد آزما ہونے کے حوالے سے، وہ مزید بہت کچھ کر سکتے ہیں، جو پاکستان و امریکہ دونوں کی سلامتی کے لیے خطرے کا باعث ہیں۔

ترجمان نے اِس اعتماد کا اظہار کیا کہ یہ معاملہ اِس سال کے آخر میں پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کے دورہ امریکہ کے دوران ایجنڈے کا حصہ ہوگا اور مزید کہا کہ رائس نے وزیر اعظم کو اکتوبر کے اواخر میں امریکہ کے دورے کی دعوت پہنچائی۔

(جاری ہے)

امریکی اہل کاروں نے اتوار کے روز اسلام آباد میں بتایا کہ رائس نے پاکستانی رہنماوٴں کو متنبہ کیا کہ افغانستان میں ہونے والے شدت پسند حملے امریکہ اور پاکستان کے مابین علاقائی اختلاف رائے کا ایک اہم نکتہ بن گئے ہیں۔

ایک اعلیٰ امریکی اہل کار کے مطابق، رائس نے پاکستانی رہنماوٴں سے کہا ہے کہ پاکستان میں موجود فورسز کی جانب سے افغانستان پر حملے’کسی طور پر قابل قبول نہیں۔اْنھوں نے کہا کہ امریکہ سمجھتا ہے کہ یہ حملے حقانی نیٹ ورک کی کارستانی ہیں، جو افغان طالبان کا ایک مہلک ترین شدت پسند گروہ ہے۔خیال کیا جاتا ہے کہ اِس نیٹ ورک کی اعلیٰ قیادت پاکستان میں چھپی ہوئی ہے۔

پاکستان کے امور خارجہ کے مشیر سرتاج عزیز نے نکتہ چینی کا جواب دیتے ہوئے پیر کے روز کہا کہ فوجی کارروائی کے نتیجے میں حقانی نیٹ ورک کے شدت پسند کمزور ہوچکے ہیں اور اب یہ گروپ زیادہ تر افغانستان سے ہی سرگرم عمل ہے۔اْنھوں نے امریکہ کے اْس بیان سے اختلاف کیا جِس میں کہا گیا تھا کہ شدت پسندوں کی جانب سے افغانستان پر کیے جانے والیزیادہ تر حملوں کی منصوبہ بندی پاکستانی پناہ گاہوں سے کی جاتی ہے۔

متعلقہ عنوان :