12 فلائٹ انسپکٹروں کی ملازمتوں میں دی گئی عمر کی حد سپریم کورٹ کے فیصلے کی خلاف ورزی ہے، عامر ہاشمی

۔ اشتہار میں عمر کی حد 63 سال دی گئی ہے جو کہ سپریم کورٹ کے فیصلے اور فیڈرل گورنمنٹ ای ایس ٹی اے کوڈ کے خلاف ہے،صدر پالپا

پیر 31 اگست 2015 22:05

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 31 اگست۔2015ء) پاکستان ایئر لائن پائلٹ ایسوسی ایشن، پالپا کے صدر کیپٹن عامر ہاشمی نے سول ایوی ایشن کی جانب سے مشتہر کی گئی 12 فلائٹ انسپکٹروں کی ملازمتوں میں دی گئی عمر کی حد کو سپریم کورٹ کے فیصلے کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ اشتہار میں عمر کی حد 63 سال دی گئی ہے جو کہ سپریم کورٹ کے فیصلے اور فیڈرل گورنمنٹ ای ایس ٹی اے کوڈ کے خلاف ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ بھرتی وزیر اعظم کی منظوری کے بغیر ہے اس لیے یہ قواعد کے بھی خلاف ہے۔ تجربہ کی شرط اس لیے وضع کی گئی ہے کہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ 60 سال کی عمر سے زائد پائلٹ ملازمت کے اہل بن سکیں۔ اس کے علاوہ ڈائریکٹر فلائٹ اسٹینڈرڈ اور فلائٹ انسپکٹر کے لیے سابقہ دیئے گئے بھرتی اشتہارات پر پیش رفت کو بھی اتھارٹی نے ختم کردیا ہے ۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں 2 لاکھ سے زائد پائلٹ ایئر لائن انڈسٹری میں کام کررہے ہیں اور ان میں سے ایک فیصد بھی بی ایس سی کی ڈگری کے حامل نہیں ہیں۔ پائلٹ کا پیشہ انجینئر اور ڈاکٹر کی طرح ایک خاص صلاحیت کا پیشہ ہے جس کے لیے بنیادی تعلیم صرف ایف ایس سی ہے تاہم زیادہ تر ممالک میں پائلٹ لائسنس (ایئر لائن ٹرانسپورٹ پائلٹ لائسنس)، اے ٹی پی ایل کو ماسٹر کی ڈگری کے برابر تسلیم کیا جاتا ہے۔

اس کے برعکس اتھارٹی کے اشتہار میں جان بوجھ کر تعلیمی قابلیت کی شرط بی ایس سی رکھی گئی ہے تاکہ کوئی بھی عام شہری پائلٹ اس مخصوص ملازمت کے لیے درخواست نہ دے سکے جو کہ عالمی ایئر لائن انڈسٹری کے مروجہ اصول اور طریقہ کار کے خلاف ہے۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ شرط مخصوص پائلٹوں کو نوازنے کیلئے رکھی گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ سی اے اے حکام کی وجہ سے قومی ایئر لائن، پائلٹ اور ایئر لائن امور مسلسل متاثر رہیں گے جب تک کہ حکومت خود ان معاملات کو درست کرنے کے اقدامات نہیں کرتی ہے۔

سیکریٹری ایوی ایشن اور وزیر اعظم کے مشیر خاص برائے ایوی ایشن کو ایئر لائن اور اس کے دیگر ریگولیٹری معاملات کو چلانے کا کوئی سابقہ تجربہ نہیں ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ ان کی معاونت کے لیے تجربہ کار افراد کو تعینات کیا جائے تاکہ ایوی ایشن کے معاملات کو بہتر بنایا جاسکے۔ سی اے اے کا فلائٹ اسٹینڈرڈ ڈائریکٹوریٹ بڑی اہمیت کا حامل ہے جو مسلسل سیکورٹی معیارات پر نظر رکھتا ہے اور اس ضمن میں تمام ایئر لائنز کی نگرانی کرتا ہے تاکہ مسافروں اور طیاروں کی سیکورٹی کی ریگولیشنز پر عمل کو یقینی بنایا جاسکے۔

یہ ڈائریکٹوریٹ کسی بھی ایئر لائن کو آپریشن کی اجازت، پائلٹ اور کیبن کرو کے معیارات اور دیگر معاملات پر عمل درآمد کو بھی یقینی بناتا ہے۔ اتنی اہمیت کے باوجود اب تک گزشتہ 15 سال سے کوئی بھی مستقل ڈائریکٹر تعینات نہیں کیا گیا ہے۔ عارضی بنیادوں پرمعاملات چلانے اور ڈائریکٹوریٹ کو اہمیت نہ دیئے جانے کی وجہ سے مستقل پالیسی کی عدم موجودگی اور دیگر خامیاں پیدا ہوگئی ہیں۔

کئی برسوں سے ایئر فورس کے افسران کو اس اہم ملازمت پر مقرر کیا جاتا ہے تاہم وہ بھی ریگولیشن کی شرائط پر پورا نہیں اترتے کیونکہ انہیں کمرشل ایوی ایشن یا سول فلائنگ کا سابقہ تجربہ نہیں ہوتا۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ سنجیدگی سے سول ایوی ایشن میں انتہائی اہم نوعیت کے نظرانداز کئے جانے والے معاملات کو درست کرے کیونکہ خدشہ ہے کہ اقربا پروری کی وجہ سے کوئی بھی حادثہ رونما ہوسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کپٹن نجم الہدیٰ کی کاوشوں سے سول ایوی ایشن کی ساکھ میں ہونی والی بہتری 2003ء کے بعد مسلسل تنزلی کا شکار ہے۔ اس کے بعد کیپٹن ذاکر کو قائم مقام چیف بنایا گیا تاہم انہیں بھی ایک سال سے پہلے ہٹا دیا گیا، کپٹن شفقت تین سال تک قائم مقام ڈائریکٹر تعینات رہے اس کے بعد بھی کوئی ایک ڈائریکٹر تعینات نہیں کیا گیا۔ زیادہ تر فلائٹ انسپکٹر 62 سال عمر سے زائد اور ریٹائرڈ ایئر لائن پائلٹ تھے جن کی ذمہ داری ایئر لائن کے پائلٹ کی نگرانی تھی ، اسی طرح وہ عارضی بنیادوں پر تعینات کئے جاتے رہے اور جن کی منظوری بھی رولز کے مطابق نہیں لی گئی تھی۔

اسی طرح سی اے اے میں ہیومن ریسورس ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ بھی ایک انجینئر ہیں جو سابقہ کوئی تجربہ یا اس ضمن میں تعلیمی قابلیت نہیں رکھتے۔ انہوں نے خود بھی سارے معاملات میں خاموشی اختیار کر رکھی ہے اور افسران بالا کے احکامات پر کوئی اعتراض نہیں کیا جاتا۔ ایئر لائن میں فلائٹ انسپکٹروں کی تعداد بہت کم ہے جس کی وجہ سے ایوی ایشن سیکورٹی کو یقینی نہیں بنایا جاسکتا۔ ان میں سے تین انسپکٹر مزید کچھ عرصے میں ریٹائر ہوجائیں گے جس کی وجہ سے ایئر لائن میں مزید پروازوں کی تاخیر اور دیگر معاملات کے متاثر ہونے کا خدشہ ہے

متعلقہ عنوان :