جبری گمشدگیوں سے متعلق اقوام متحدہ کے معاہدے کی توثیق کی جائے‘ ایچ آر سی پی

یہ انتہائی افسوسناک امر ہے ریاستی ادارے بشمول موجودہ حکومت انسانی حقوق کی اس خلاف ورزی کو سنجیدہ نہیں لے رہے‘ عاصمہ جہانگیر

پیر 31 اگست 2015 17:18

لاہور ( اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 31 اگست۔2015ء) پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) نے حکومت سے جبری وغیرارادی گمشدگیوں سے متعلق اقوام متحدہ کے معاہدے کی فوری طور پر توثیق کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ کمیشن نے یہ بھی مطالبہ کیا ہے کہ جبری گمشدگیوں میں ملوث عناصر کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جائے کیونکہابھی تک اس حوالے سے کسی ایک فرد کے خلاف بھی قانونی کارروائی نہیں کی گئی۔

جبری گمشدگیوں کے متاثرین کے عالمی دن کے موقع پر جاری ہونے والے ایک بیان میں کمیشن نے کہاکہ حکومت کو جبری گمشدگیوں کو مجرمانہ فعل قرار دینا چاہئے۔ پاکستان میں لاپتہ افراد کے حوالے سے صورتحال منفرد ہے کیونکہ پاکستان نے دو الگ قوانین کا نفاذ کیا ہے جو جبری گمشدگیوں کے عمل کو قانونی تحفظ فراہم کرتے ہیں۔

(جاری ہے)

پاکستان تحفظ ایکٹ 2014 ء کے تحت، معقول شبہ کی بنیاد پر کسی فرد کو بغیر کسی وارنٹ کے 90روز کے لیے آزادی سے محروم کرنا قانونی اقدام ہے۔

اسی طرح، ’’ایکشن اِن ایڈ آف سول پاور ریگولیشن 2011‘‘، کے تحت مسلح افواج کے اقدامات اور کارروائیوں کو قانونی تحفظ حاصل ہے۔ یہ قوانین پاکستان کے آئین کی دفعات اور انسانی حقوق کے عالمی منشور (یو ڈی ایچ آر) سے متصادم ہیں اور اس جرم کا ارتکاب کرنے والے مجرموں کو استثنیٰ فراہم کرتے ہیں۔مشاورت کا اہتمام جبری گمشدہ افراد کے عالمی دن کے موقع پر ہوا تھا اور مشاورت کے بعد پرامن احتجاجی مظاہرے کا اہتمام بھی کیا گیا تھا۔

انسانی حقوق کے کارکنوں، قانونی ماہرین، ذرائع ابلاغ سے منسلک افراد، سول سوسائٹی کی تنظیموں کے اراکین اور بلوچستان، کے پی اور سندھ سے لاپتہ افراد کے اہل خانہ مشاورت میں شریک تھے۔ایچ آر سی پی نے رواں برس کے اوائل میں سندھ کے متاثرہ خاندانوں کے انٹرویوز کئے تھے جنہیں مشاورت کے دوران پیش کیا گیا ۔تقریب میں شریک خاندانوں نے دیگر شرکاء کو اپنی داستانیں سنائیں اور اس کے بعد سول سوسائٹی کی تنظیموں کی جانب سے کھلے مباحثے کا اہتمام کیا گیا۔

انسانی حقوق کی کارکن اور ڈیفنس فارہیومن رائٹس، کی چیئرپرسن آمنہ مسعود جنجوعہ اس معاملے میں حکومت کی عدم دلچسپی پر تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے تجویز پیش کی کہ تمام مرکزی فریقین کو اکٹھا ہوکر اس مسئلے پر مذاکرے کا اہتمام کرنا چاہئے اور مزید کہا کہ سیاسی عمل ہی اس مسئلے کا مناسب حل ہے۔سول سوسائٹی کی تنظیموں کے قائدین کا کہنا تھا کہ اگر اس سنگین جرم کی روک تھام نہ کی گئی تو مستقبل میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا سلسلہ جاری رہے گا۔

پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق کی سابق چیئرپرسن اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی سابق صدرعاصمہ جہانگیر نے کہا کہ یہ انتہائی افسوسناک امر ہے کہ ریاستی ادارے بشمول موجودہ حکومت انسانی حقوق کی اس خلاف ورزی کو سنجیدہ نہیں لے رہے۔ مشاورت میں موجود متاثرین کے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس جرم میں ملوث ریاستی عناصر کواپنے خلاف قانونی کارروائی کے فقدان کے باعث شہہ ملی ہے‘‘۔

متعلقہ عنوان :