دہشت گردی کی حالیہ لہر عدلیہ اور قانون سازوں کی جانب سے سیکورٹی خدشات کا اظہار

پیر 31 اگست 2015 15:00

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 31 اگست۔2015ء) صوبائی وزیر داخلہ کرنل ریٹائرڈ شجاع خانزادہ اور ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس حضرو سمیت دیگر 20 افراد پر ہونے والے شادی خان خودکش حملے کے بعد قانون سازوں اور عدلیہ نے دہشت گردی کی تازہ اور ابھرتی ہوئی لہر میں سیکورٹی خدشات کا اظہار کر دیا اور مزید سیکورٹی فراہم کرنے کا مطالبہ کر دیا ۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اٹک میں ہونے والے خودکش حملے کے بعد قانون سازوں اورعدلیہ کی جانب سے پولیس حکام سے پوچھا گیا ہے کہ حالیہ دہشت گردی کی لہر کے نتیجے میں انہوں نے عدلیہ اور قانون سازوں کی سیکورٹی کے حوالے سے کیا اقدامات کئے ہیں۔

جس پر سینئر پولیس حکام نے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد پولیس کو پہلے ہی افرادی قوت کا سامنا ہے جبکہ قانون سازوں اور عدلیہ کے لئے بھی سیکورٹی کا اضافہ کیا جا رہا ہے ۔

(جاری ہے)

علاوہ ازیں معزز شہریوں اور ان کے جان و مال کی حفاظت کے لئے بھی سیکورٹی سخت کرنے کی ضرورت ہے ۔ حکام کا کہنا ہے کہ لوئر کورٹس ، ھائیر کورٹس اور اپیکس کورٹس کے تمام ممبران کی حفاظت کے لئے پہلے سے ہی دو افسران کو انکی رہائشگاہوں پر تعینات کیا گیا ہے جبکہ وزراء کو بھی پولیس گارڈ دیئے گئے ہیں ۔

اٹک میں ہونے والے خودکش حملے کے بعد ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ کے ججز نے لوئر اور ہائی کورٹ کی سیکورٹی پر انسپکٹر جنرل پولیس اسلام آباد کو ایک خط لکھا تھا جس میں یہ کہا گیا تھا کہ پولیس حکام کی جانب سے عدالتوں کی حفاظت کے لئے جو افسران تعینات کئے گئے ہیں اور اپنی ڈیوٹی آئین و قانون کے مطابق نہیں کر رہے جو کہ مجرمانہ غفلت ہے جس کے جواب میں پولیس حکام کا کہنا تھا سیکورٹی میں غفلت برتنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی اور ہر قیمت پر سیکورٹی انتظامات کو بہتر بنائیں گے ۔

پولیس کی جانب سے یہ بھی بتایا گیا کہ 8 پیرا ملٹری فورسز کے جوانوں سمیت کل 126 افسران عدالتوں کے باہر تعینات ہیں اگرچہ سیکورٹی اقدامات کو مزید بہتر بنایا جا رہا ہے لیکن وکلاء برادری کی جانب سے سیکورٹی آفسران کے ساتھ رویہ نامناسب ہے جس کے باعث افسران اپنی ڈیوٹی صحیح طریقے سے نہیں کر پا رہے ۔جس پر ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس نے وکلاء برادری سے درخواست کی ہے کہ وہ صدر ڈسٹرکٹ بار کونسل کے ساتھ مل کر پولیس کے ساتھ تعاون کریں اور فوری طور پر واک تھرو گیٹ اور سی سی ٹی کیمرہ کی تنصیب کی جائے ادھر قانون سازوں کی جانب سے مزید سیکورٹی فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے جس کے حوالے سے گزشتہ ہفتے وزارت داخلہ میں ایک اجلاس ہوا جس میں اسلام آباد پولیس اور اسلام آباد انتظامیہ کے حکام نے شرکت کی جہاں پر قانون سازوں کو سیکورٹی فراہم کرنے سے متعلق بحث کی گئی۔

پولیس نے وزارت کو بتایا کہ وزراء سمیت ہر رکن کو سیکورٹی فراہم کرنا ممکن نہیں ہے ۔تاہم پولیس کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اس نے ریڈ زون جس میں پارلیمنٹ ہاؤس ، پارلیمنٹ لاجز اور منسٹر انکلیو ہے وہاں پر سیکورٹی سخت کی ہوتی ہے ۔پولیس حکام کا کہنا ہے کہ وزراء سمیت 28 قانون سازوں اور ان مذہبی علماء اور سیاستدانوں جن کو دھمکیاں مل رہی ہیں ان کے ساتھ اضافی گارڈز کو تعینات کیا گیا ہے جبکہ پولیس ان کے زیر استعمال رہائشگاہوں کے اطراف بھی چیکنگ کر رہی ہے ۔