دیر سے انصاف کی فراہمی انصاف نہ دینے کے مترادف ہے، ججز صاحبان کسی دباؤ کو خاطر میں لائے بغیر جلد میرٹ پر فیصلے کر یں‘ یہ نہیں کہہ سکتا لوگ ہم سے مکمل طور پر مطمئن ہیں ، ہم اپنے اند ر مزید بہتری لا کر لوگوں کی مشکلات کا ازالہ کر سکتے ہیں‘ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس منظور احمد ملک کا پنجاب جوڈیشل اکیڈمی میں صوبائی عدلیہ میں نئی تقرری پانے والے 369 سول ججوں کی حلف برداری تقریب سے خطاب

ہفتہ 29 اگست 2015 21:48

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 29 اگست۔2015ء) چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس منظور احمد ملک نے کہا ہے کہ ججزصاحبان کسی دباؤ کو خاطر میں لائے بغیر دلیری سے میرٹ پر فیصلے کریں،دیر سے انصاف کی فراہمی انصاف نہ دینے کے مترادف ہے، اس لئے میرٹ پر جلد فیصلے کر یں ،یہ نہیں کہہ سکتا کہ لوگ ہم سے مکمل طور پر مطمئن ہیں لیکن ہم اپنے اند ر مزید بہتری لا کر لوگوں کی مشکلات کا ازالہ کر سکتے ہیں۔

وہ ہفتہ کو پنجاب جوڈیشل اکیڈمی میں صوبائی عدلیہ میں نئی تقرری پانے والے 369 سول ججوں کی حلف برداری تقریب سے خطاب کر رہے تھے ۔ حلف برداری کی تقریب میں جسٹس سید منصور علی شاہ،جسٹس محمود مقبول باجوہ، جسٹس امین الدین خان، ڈائریکٹر جنرل پنجاب جوڈیشل اکیڈمی جسٹس(ر) چودھری شاہد سعید ، رجسٹرار طارق افتخار احمد اور ممبر انسپکشن ٹیم شاہد نصیر سمیت دیگر نے شرکت کی ۔

(جاری ہے)

اس موقع پر نومنتخب 369 سول ججوں سے اجتماعی طور پر انکے عہدوں کا حلف لیا گیا ۔ نیا تقرری پانے والے سول ججوں میں 85خواتین سول ججز بھی شامل ہیں۔تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس منظور احمد ملک نے کہا کہ آج نو منتخب سول ججز کیلئے بہت اہم دن ہے اور یہ ان کیلئے اعزاز ہے کہ وہ منصف جیسے عہدے پر فائز ہوئے۔انصاف اﷲ تعالیٰ کی صفت ہے ، وہی اصل انصاف کرنے والا ہے۔

ہم ججز تو محض دنیاوی زندگی چلانے ذریعہ ہیں۔ٹکراؤ و تصادم انسان کی فطرت میں شامل ہے، پہلے معاملات طاقت کے زور پر طے کئے جاتے تھے، انسانی ترقی کے ساتھ ساتھ ادارے وجود میں آئے۔ پاکستان میں عدلیہ موجود ہے جو اپنی آزاد سوچ کے تحت سائلین کو بہترین فراہمی انصاف کیلئے کوشاں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے معاشرے میں بڑے مسائل ہیں اور تکالیف میں گھرے لوگ ہماری طرف دیکھتے ہیں۔

میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ لوگ ہم سے مکمل طور پر مطمئن ہیں لیکن ہم اپنے اند ر مزید بہتری لا کر لوگوں کی مشکلات کا ازالہ کر سکتے ہیں۔ فاضل چیف جسٹس نے نو منتخب سول ججوں سے کہا کہ آپ لوگوں کو انصاف مہیا کریں گے تو اﷲ تعالیٰ آپ کو انصاف دے گا، وہی ہمیں دنیا اور آخرت میں اسکا اجر دے گا کیونکہ وہ ہمارے تمام اعمال سے باخوبی واقف ہے ۔آپ کی تقرری کے عمل کو شفاف بنانے کیلئے کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی اور اس بات کے آپ خود گواہ ہیں کہ آپ کی سلیکشن میرٹ پر ہوئی ہے یا کسی سفارش پر۔

انہوں نے نو منتخب خواتین سول ججوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ان پر دوہری ذمہ داری ادا ہوتی ہے، ایک طرف تو انہیں نے بہترین انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانا ہے اور دوسری طرف اپنے رویے، کردار اور مضبوط فیصلوں کی بدولت معاشرے کی عورت کے بارے منفی سوچ کو بدلنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جج کی نمایاں خوبیوں میں وقت کی پابندی، عدالت میں کام کا انداز شامل ہیں جبکہ جج کا چہرہ، گفتگو اور لباس بھی لوگوں کی توجہ کا مرکز ہوتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ تمام ججز آج بھی وکیل ہیں، انہیں چاہیے کہ وکلاء کی عزت کریں اور بار کے ساتھ احترام کا رشتہ قائم کریں۔ ان کا کہناتھا کہ کسی وکیل کی انفرادی سوچ غلط ہوسکتی ہے مگر بار کی مجموعی سوچ کبھی غلط نہیں ہوتی۔ فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ جج کو زیب نہیں دیتا کہ وہ کسی سائل کو ـ" تو" کہہ کر مخاطب کرے اور کسی کی عزت نفس مجروح کرے۔ فاضل چیف جسٹس نے نو منتخب جج صاحبان کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ وہ محنت ، لگن اور توجہ سے کام کر کے اپنا مقام بنائیں، لاء بکس اور جرنلز پڑنے کی عادت ڈالیں۔ انہوں نے کہا کہ دیر سے انصاف کی فراہمی، انصاف نہ دینے کے مترادف ہوتا ہے، اس لئے میرٹ کے مطابق جلد فیصلے کر یں تاکہ لوگوں کا عدالتوں پر اعتماد مزید مستحکم ہو۔