مسئلہ کشمیر میں ثالثی نہ کرنے کی امریکی پالیسی…1954 سے قائم، خفیہ امریکی دستاویز میں انکشاف

ہفتہ 29 اگست 2015 13:52

واشنگٹن(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 29 اگست۔2015ء) حال ہی میں جاری کئے گئے خفیہ امریکی دستاویزکے مطابق واشنگٹن نے کشمیر کے معاملے پر بھارت اور پاکستان کے مابین کسی بھی قسم کی درمیانہ داری نہ کرنے کی پالیسی 1950 کی دہائی میں اختیار کی تھی جس پر وہ اب بھی کاربند ہے۔اس سلسلے میں1954میں جنوبی ایشیاء سے متعلق ایک اعلیٰ سطحی امریکی ادارے نے واضح کیا تھا کہ امریکہ دونوں ملکوں کو اقوام متحدہ کی وساطت سے معاونت فراہم کرنے کیلئے تیار ہے ، تاہم تنازعہ کشمیر کا حل کسی بھی فریق کے حق میں ہونے کے پیچھے اْسکے پوشیدہ مفادات نہیں ہیں اور نہ ہی وہ کسی کے خلاف کسی ایک ملک کی حمایت کرے گا۔

امریکی وزارت خارجہ کے توسط سے ملک کی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کی طرف سے گزشتہ ماہ بر صغیر ہند کی تقسیم کے بعد ہندپاک تعلقات، تنازعہ کشمیر اور اس حوالے سے امریکہ کے کردار سے متعلق دستاویز منظر عام پر لایا گیا ہے جس میں کشمیر مسئلے کے حوالے سے سابق امریکی حکمرانوں کی پالیسی کے بارے میں کئی سنسنی خیز انکشافات سامنے آئے ہیں۔

(جاری ہے)

خفیہ دستاویزکے تناظر میں یہ خبر پہلے ہی منظر عام پر آئی ہے کہ امریکہ نے1965کی ہند پاک جنگ کے دوران جموں کشمیر میں رائے شماری نہ کرانے کے بھارتی موقف کی حمایت کی تھی۔

دستاویز کے مطابق امریکہ نے اصل میں مسئلہ کشمیر کو لیکر 1950کی دہائی میں اپنی پالیسی وضع کی تھی جس کے تحت اس تنازعہ کے سلسلے میں ہندوپاک کے مابین کسی بھی قسم کی درمیانہ داری یا ثالثی کو خارج از امکان قرار دیا گیا۔حکومت امریکہ 1954میں اس نتیجے پر پہنچی تھی کہ کشمیر کا مسئلہ بھارت اور پاکستان کے مابین پر امن بات چیت کے ذریعے حل کیا جانا چاہئے۔

امریکہ کا یہ موقف ”آپریشن کارڈی نیشن بورڈ“ کے پیرا42میں واضح طور پر درج ہے

جو اْس وقت کے امریکی صدر ڈیوائٹ ایزن ہووَر نے تشکیل دیا تھا اور اسے قومی سلاتی سے متعلق پالیسیوں کو عملی جامہ پہنانے کی خاطر مختلف ایجنسیوں کے مابین تال میل کو مضبوط بنانے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ اْس وقت کے امریکی صدر نے 6مارچ1954کو آپریشن کارڈی نیشن بورڈ کے قیام کی منظوری دی تھی اور بورڈ کی بنیادی ذمہ داری جنوبی ایشیاء سے متعلق امریکی پالیسیوں پر عملدرآمد کو یقینی بنانا تھا۔

بورڈ کے ایک دستاویز میں کہا گیا ہے”بھارت پر یہ بات متواتر طور واضح کی جائے کہ کشمیر مسئلے کو ہندوپاک کے درمیان باہمی سمجھوتے کے ذریعے حل کیا جانا چاہئے، امریکہ اقوام متحدہ یا کسی اور طریقے سے معاونت فراہم کرنے کیلئے تیار ہے ، لیکن امریکہ کے اس مسئلے کے حل کو لیکر کوئی خصوصی مفادات یا پوشیدہ مقاصد نہیں ہیں جو تنازعے کا حل کسی بھی ملک کے حق میں ہونے سے اسے حاصل ہوسکتے ہیں“۔

خفیہ امریکی دستاویز میں کہا گیا ہے کہ بورڈ کی طرف سے امریکی پالیسیوں کو عملی جامہ پہنائے جانے کے بارے میں ایک پیشرفت رپورٹ1954میں ہی پیش کی گئی جس میں یہ موقف صاف طور پر ظاہر کیا گیا کہ امریکہ کی نظر میں تنازعہ کشمیر کو ہندو پاک کے باہمی سمجھوتے کے ذریعے حل کرنے کی ضرورت ہے اور امریکہ کشمیر میں رائے شماری کی حمایت نہیں کرتا جیسا کہ پاکستان کی طرف سے اقوام متحدہ قراردادوں کو بنیاد بناکر مطالبہ کیا جاتا ہے۔کارڈی نیشن بورڈ کو بعد میں ایک اور امریکی صدر جان کینیڈی نے1961میں تحلیل کردیا تھا۔