سپریم کورٹ نے آ ئینی تر میم با رے فیصلہ دے کر نظریہ ضرورت کو دوبارہ زندہ کر دیا ، وکلاء

بدھ 5 اگست 2015 12:58

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 05 اگست۔2015ء) سپریم کورٹ کی جانب سے 21 ویں اور 18 ویں ترمیم کے خلاف دائر درخواستیں خارج ہونے کے فیصلے کو وکلاء نے سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ نظریہ ضرورت کو دوبارہ زندہ کر دیا گیا ۔ عام آدمی کے تمام حقوق چھین لئے گئے ۔ بعض وکلاء تو فیصلے پر صرف اناللہ و اناالیہ راجعون کہہ کر بات ختم کر دی ۔

اکرام چودھری ، حشمت حبیب ایڈووکیٹ ، توفیق آصف ، احسن الدین شیخ نے مخالفت میں بات کی جبکہ وزیر اعظم کے مشیر اشترو اوصاف نے کہاہے کہ فیصلہ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے ۔ فوجی عدالتیں فیصلے جلد بازی میں نہ کریں اور نہ ہی فیصلوں میں اتنی تاخیر کریں کہ انصاف کا قتل ہو جائے ۔ فوجی عدالتیں فوری طور پر موثر ہو چکی ہیں ۔ سپریم کورٹ سے باہر میڈیا سے گفتگو میں سینئر قانون دانوں نے فیصلے کو آڑے ہاتھوں لیا۔

(جاری ہے)

اکرام چودھری کا کہنا تھا کہ فیصلہ سے واضح ہو گیا کہ تمیزالدین کیس سے لے کر اب تک جتنے فیصلے آئے ہیں یہ فیصلہ سب سے مایوس کن ہے ۔ اس فیصلے کے دور رس اثرات مرتب ہوں گے ۔ حشمت حبیب کا کہنا تھا کہ فوجی عدالتوں کو کام کرنے کی اجازت دے کر نظریہ ضرورت کو زندہ کر دیا گیا ۔آنے والا رخ اس فیصلے کو صحیح قرار نہیں دے گا ۔ توفیق آصف کا کہنا تھا کہ فوجی عدالتیں متوازی عدالتیں ہیں جن کی آئین و قانون میں کوئی گنجائش نہیں ہے ۔

سابق وزیر قانون افتخار گیلانی نے کہا کہ پارلیمنٹ سپریم ہے اور جو چاہے آئین میں ترمیم کرے ۔ پارلیمنٹ کے فیصلوں کو مسترد نہیں جانا چاہئے ۔ احسن الدین شیخ نے کہا کہ ابھی یہ واضح نہیں ہو سکا ہے کہ کیس کن ججوں نے اختلاف کیا ہے اور انہوں نے اس بارے کیا رائے ہے ۔ جہاں تک ابھی ابتدائی فیصلے کا تعلق ہے تو یہ آئین و قانون سے متصادم فیصلہ ہے ۔

متعلقہ عنوان :