18 اور21ویں ترامیم کے خلاف درخواستیں خارج ،سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں کو آئینی قرار دیدیا

بدھ 5 اگست 2015 11:56

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔05اگست۔2015ء) سپریم کورٹ نے اٹھارویں اور اکیسویں آئینی ترامیم کے خلاف درخواستیں خارج کرتے ہوئے فوجی عدالتوں کو آئینی قرار دیدیا‘ اکیسویں آئینی ترمیم کے خلاف تمام درخواستیں اکثریتی رائے سے خارج کردی گئیں‘ چیف جسٹس ناصر الملک سمیت سپریم کورٹ کے 11ججز نے فوجی عدالتوں کے حق میں جبکہ جسٹس جواد ایس خواجہ سمیت 6ججز نے مخالفت میں اختلافی نوٹ دیا‘ اٹھارویں آئینی ترمیم کے حق میں 14ججز جبکہ 3ججز نے مخالفت کی‘ فوجی عدالتوں کا قیام 7 جنوری میں عمل میں لایا گیا تھا‘ان عدالتوں سے 6دہشت گردوں کو سزائے موت سنائی گئی تھی تاہم حکم امتناعی کے باعث ان سزاؤں پر عمل درآمد رکا ہوا تھا‘ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں یہ حکم امتناعی بھی ختم کردیا جس کے بعد سزائیں بحال ہوگئیں۔

(جاری ہے)

تفصیلات کے مطابق بدھ کو سپریم کورٹ کے 17رکنی فل بینچ نے اٹھارویں اور اکیسویں آئینی ترامیم کے خلاف درخواستوں پر فیصلہ سنا دیا‘ چیف جسٹس ناصر الملک نے فیصلہ تحریر کیا۔ عدالت نے اکیسویں آئینی ترمیم کے خلاف تمام درخواستیں خارج کرتے ہوئے فوجی عدالتوں کے قیام کو آئینی قرار دیدیا۔ اٹھارویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستیں بھی مسترد کردی گئیں۔

چیف جسٹس ناصر الملک سمیت گیارہ ججز نے اکیسویں آئینی ترمیم کے حق میں جبکہ جسٹس جواد ایس خواجہ ‘ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ‘ جسٹس اعجاز افضل‘ جسٹس اعجاز چوہدری‘ جسٹس دوست محمد سمیت 6ججز نے اختلافی نوٹ دیا۔ اٹھارویں آئینی ترمیم پر بھی تمام درخواستیں مسترد کردی گئیں۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ناصر الملک سمیت 14ججز نے اٹھارویں ترمیم کے حق میں جبکہ تین ججز نے اٹھارویں ترمیم کے خلاف فیصلہ دیا۔

اٹھارویں آئینی ترمیم کے خلاف 24جبکہ اکیسویں آئینی ترمیم کے خلاف 17درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔ اکیسویں آئینی ترمیم 6جنوری کو پارلیمنٹ سے پاس کی گئی تھی اور 7جنوری کو قانون بنا تھا۔ فوجی عدالتیں دو سال کے لئے قائم کی گئی ہیں جو کہ 7جنوری 2017کو ختم ہوجائیں گی جبکہ اٹھارویں آئینی ترمیم میں ججز تقرری کا طریقہ کار چیلنج کیا گیا تھا۔

ابتدائی طور پر 9فوجی عدالتیں قائم کی گئی تھیں تین فوجی عدالتیں خیبر پختونخوا میں‘ تین پنجاب میں‘ دو سندھ میں اور ایک بلوچستان میں قائم کی گئی تھیں۔ فوجی عدالتوں نے چھ دہشت گردوں کو سزائے موت سنائی تھی تاہم سپریم کورٹ کی طرف سے حکم امتناعی جاری کئے جانے کی وجہ سے ان سزاؤں پر عمل درآمد نہ ہوسکا تھا تاہم اب سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد حکم امتناعی ختم ہوجانے کے بعد ان سزاؤں پر عمل درآمد ہوسکے گا۔

متعلقہ عنوان :