فوری اور سستا انصاف،لیگل ریفارمز کمیٹی نے رپورٹ وزیراعظم کو پیش کردی

جھوٹا مقدمہ درج کرانے پر بھاری جرمانہ،غلط حکم امتناع پر متاثرہ فریق کو ہرجانے کی ادائیگی ، فریقین کو طلب کرنے کیلئے الیکٹرانک ڈیوائسز کا استعمال مقدمات کے فیصلے کیلئے مدت کا تعین ،عدالت میں تحریری دلائل پیش کرنا ، زیادہ ججوں کا تقرر ، ججوں کی تربیت، تفتیش میں بددیانتی پر پولیس افسران کو سزا روزانہ مقدمے کا ٹرائل، بھتہ خوری ، قبضہ ماحولیات آلودگی پر سزاؤں میں اضافہ ،جج گواہوں اور پراسکیوٹرز کی سکیورٹی کے انتظامات سمیت دیگر سفارشات شامل کمیٹی نے تمام سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے زمینی حقائق اورسائلین کو درپیش مشکلات کو پیش نظر رکھتے ہوئے سفارشات مرتب کیں، چوہدری اشرف گوجر

منگل 4 اگست 2015 20:56

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔04اگست۔2015ء) وزیراعظم لیگل ریفارمز کمیٹی نے پاکستانی عوام کو جلد فوری اور سستے انصاف کی فراہمی یقینی بنانے کیلئے 144صفحات پر مشتمل رپورٹ وزیراعظم کو پیش کردی ہے ۔ رپورٹ میں جھوٹا مقدمہ درج کرانے پر بھاری جرمانہ عائد کرنے ، جج کو پہلی تاریخ پر مقدمے کے قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کرنا ، غلط حکم امتناع پر متاثرہ فریق کو ہرجانے کی ادائیگی ، فریقین کو طلب کرنے کیلئے الیکٹرانک ڈیوائسز کا استعمال ، مقدمات کے فیصلے کیلئے کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ مدت کا تعین ، وکلاء عدالت میں تحریری دلائل پیش کرنا ، زیادہ سے زیادہ ججوں کا تقرر عمل میں لانے ، ججوں کی تربیت کا اہتمام ، تفتیش میں بددیانتی اور غفلت کے مرتکب پولیس افسران کو تین سال سزا، روزانہ کی بنیاد پر مقدمے کا ٹرائل بھتہ خوری ، قبضہ ماحولیات آلودگی کی سزاؤں میں اضافہ ، مقدمہ کا چالان چودہ دن کے اندر عدالت میں پیش کرنا جج گواہوں اور پراسکیوٹرز کی سکیورٹی کے انتظامات سمیت دیگر سفارشات شامل ہیں وزیراعظم محمد نوازشریف نے قوم کو” قانونی و عدالتی اصلاحات پیکیج“ دینے کیلئے پاکستان مسلم لیگ ن کی قانونی ٹیم کے سینئر رکن اور اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے بانی صدر چوہدری محمد اشرف گوجر ایڈووکیٹ سپریم کورٹ ممبر پیمرا کی سربراہی میں قانونسازی کی غرض سے سفارشات مرتب کرنے کیلئے ”وزیر اعظم لیگل ریفارمز کمیٹی“ قائم کی تھی کمیٹی کے چیئرمین چوہدری محمد اشرف گوجر نے پاکستانی عوام کو عدالتوں سے سستے ، جلدی و فوری انصاف کی فراہمی کیلئے دیوانی و فوجداری عدالتوں، پولیس کے کردار اور متبادل عدالتی نظام کے ساتھ ساتھ عدالتوں میں انفارمیشن ٹیکنالوجی اور شعبہ وکالت میں انقلابی تبدیلیاں متعارف کروانے کیلئے قانونسازی سمیت انتظامی اقدامات بارے لائحہ عمل تجویز کرنے کی غرض سے پاکستان کے چاروں صوبوں ،اسلام آباد، آزاد جموں و کشمیراورگلگت بلتستان کی ہائی کورٹس سمیت سپریم کورٹ آف پاکستان، فیڈرل شریعت کورٹ اور تمام صوبوں نیز دیگر علاقہ جات کے ضلعی جج صاحبان کیساتھ مربوط رابطوں، میٹنگز اور تبادلہ خیال کے ساتھ پاکستان، کشمیر اورگلگت بلتستان کی وکلاء تنظمیوں، وزارتِ قانون، لاء اینڈ جسٹس کمیشن، نادرا، سیکورٹی ایکسچینج کمیشن آف پاکستان، نیب، ایف آئی اے، وفاقی محتسب، وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی، تاجر تنظیموں، چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری، تاجر تنظیموں، قانون کے اساتذہ، پاکستان کشمیر اور گلگت کے چیف سیکریٹریز،قانون اور داخلہ کے صوبائی محکمہ جات کے سیکریٹریز نیز پاکستان بھر کے آئی جی صاحبان سے تفصیلی مشاورت کے بعد پاکستان کے نظام عدل میں اصلاحات کیلئے ”وزیراعظم کے قانونی و عدالتی اصلاحاتی پیکیج“ کی تیاری کیلئے سفارشات کو حتمی شکل دیدی ہے۔

(جاری ہے)

وزیراعظم لیگل ریفارمز کمیٹی کے سربراہ چوہدری محمد اشرف گوجر ایڈووکیٹ نے 144صفحات پر مشتمل مفصل رپورٹ گزشتہ روزوزیراعظم میاں محمد نواز شریف کو پیش کردی ہے۔ پاکستان کے عوام کو جلد فوری اور سستے انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانے کیلئے ملک میں دیوانی و فوجداری عدالتوں، پولیس کے کردار اور متبادل عدالتی نظام کے ساتھ ساتھ عدالتوں میں انفارمیشن ٹیکنالوجی اور شعبہ وکالت میں انقلابی تبدیلیوں بارے ’وزیراعظم لیگل ریفارمز کمیٹی‘ کی سفارشات میڈیا کو جاری کرتے ہوئے کمیٹی کے چیئرمین چوہدری محمد اشرف گوجر ایڈووکیٹ سپریم کورٹ نے کہا کہ ماضی میں بننے والی لیگل ریفارمز کمیٹیوں کی نسبت اُن کی سربراہی میں اس کمیٹی نے مختصر ترین عرصہ میں تمام سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے زمینی حقائق او رسائلین کو درپیش عملی مشکلات کو پیش نظر رکھتے ہوئے سفارشات مرتب کی ہیں۔

چوہدری محمد اشرف گوجر ایڈووکیٹ نے کہا کہ حکومت کولیگل ریفارمز کمیٹی کیلئے وزارت قانون و انصاف میں دفتر کی فراہم کرنے کے علاوہ ایک روپیہ بھی خرچ نہیں کرنا پڑا۔ چوہدری محمد اشرف گوجر ایڈووکیٹ سپریم کورٹ نے کہا کہ ملک میں قانونی و عدالتی اصلاحات کیلئے سفارشات مرتب کرنے کے عمل میں انہیں سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس جواد ایس خواجہ کی خصوصی راہنمائی حاصل رہی۔

سفارشارت میں کہا گیا ہے کہ ہر طرح کے معاہدہ جات کو سب رجسٹرار کے پاس رجسٹرڈ کروانا لازمی قرار دیا جائے۔ وکلاء کو معاہدہ جات تیار کرنے کا اختیار تمام معاہدہ جات کی تحریر اور توثیق صرف اور صرف لیگل پریکٹییشنرز (وکلاء)سے کروانا لازمی قرار دیا جائے۔مقدمہ جھوٹا اور من گھڑت ہونے کی صورت میں ذمہ دار فریق مقدمہ اور اُس کے وکیل پر بھاری جرمانہ ادا کیا جائے۔

موجودہ ضابطہ دیوانی کی دفعہ35 اور 35-Aمیں واضح تبدیلی کیجائے۔مخالف فریق کی عدالت میں طلبی کیلئے مروجہ طریقہ کار کیساتھ ساتھ ٹیلیفون کالز، موبائل ایس ایم ایس اور ای میلز کو بھی قانونی حیثیت دی جائے۔ نادرہ ڈیٹابیس کو عدالتوں سے منسلک کیا جائے۔عدالت میں مقدمہ دائر کرنے والے فریق کو پابند بنایا جائے کہ وہ اپنے اور فریق مخالف کے مکمل کوائف(جہاں تک ممکن ہو) اپنے دعوی کیساتھ فراہم کرے، مثلاً شناختی کارڈ نمبر و کاپی، موبائل نمبرز، ٹیلیفون نمبرز، ای میلز، رہائش و کاروبار کے تمام پتہ جات، وغیرہ۔

ہر جج کو پابند بنایا جائے کہ وہ پہلی تاریخ ِ سماعت پر مقدمہ کے قابلِ سماعت اور قابل پیش رفت ہونے کی بابت تفصیلی آرڈر جاری کرے نیز ضابطہ دیوانی کے آرڈر7 رول11 کی منشاء کے بارے میں تفصیلی حکم پہلی ہی تاریخ پر جاری کرے۔ کسی مقدمہ میں ناکافی بنیادوں پر حکم امتناعی حاصل کرنے پرضابطہ دیوانی کی دفعہ 95کے تحت متاثرہ فریق کو ہرجہ و خرچہ دلوانے کی رقم کو مبلغ ایک لاکھ روپے تک بڑھایا جائے۔

غیر ضروری التواء کی صورت میں ذمہ دار فریق کو بھاری جرمانہضابطہ دیوانی کے آرڈر میں ترمیم کے ذریعے غیر ضروری التواء کے ذمہ دار فریق پر فریق مخالف کے خرچہ و ہرجہ، ٹائم کے ضیاع اور عدالت کے وقت کے ضیاع کو پیش نظر رکھے وہے بھاری جرمانہ ادا کیا جائے موجودہ قانون میں مقدمہ کے ہر مرحلہ کیلئے دی گئی ڈیڈ لائن پر سختی کے ساتھ عملدرآمد کیا جائے ۔

فریقین تمام ممکنہ درخواست ہائے ایک ہی تاریخ پر عدالت میں دائر کریں ۔ آئندہ تاریخ پر فریقین ایکدوسرے کی درخواستوں کے جواب جبکہ اگلی تاریخ پر عدالت تمام درخواستوں پر اپنا فیصلہ سنا دے گی۔ اس کے بعد کسی بھی فریق کو متفرق درخواستیں دینے کی اجازت نہ ہوگی۔ مقدمات کے حتمی فیصلہ جات کے لئے کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ مدت کے تعین کیلئے ضابطہ دیوانی میں ترمیم کی جائیگی۔

مدت کا تعین کرتے وقت سول جج، ڈسٹرکٹ جج، ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کو پابند بنایا جائے کہ وہ مقررہ مدت کے اندر فیصلہ جات کو یقینی بنائیں، مثلاً کم مالیت یا معمولی نوعیت کے مقدمہ جات کا فیصلہ6 ماہ میں جبکہ دیگر عام نوعیت کے دیوانی مقدمہ جات ہر صورت1 سال کے اندر فیصلہ ہو جانا چاہئیں۔دیوانی عدالتیں مقدمات ڈگری کرنے کے بعد از خود اجراء (Execution) کا عمل شروع کردیں۔

سائلین کو فیصلہ ہوجانے کے بعد نئے سرے سے اجراء پٹیشن دائر کرنے کی ضرورت نہیں ہونی چاہئے کیوں کہ مشاہدے میں آیا ہے کہ جتنا عرصہ فیصلہ ہونے میں لگتا ہے اُس سے زیادہ اجراء یا عملدرآمد میں لگ جاتا ہے کلاء کو پابند بنایا جائے کہ وہ زبانی دلائل کے ساتھ ساتھ تحریری دلائل بھی عدالت میں پیش کریں تاکہ ان کے مئوکلین کو علم ہو سکے کہ ان کے وکیل نے مقدمہ کی تیاری میں کتنی محنت کی ہے عدالتی سمنات اور نوٹسز کی ترسیل کوNADRA اور PTAکے ڈیٹا بیس سے منسلک کیا جائیگا عدالتی سمن اور نوٹس ترسیل کرنے کے ذمہ دار عدالتی ونگ کو نادرا NADRAاور پاکستان ٹیلیکمیونیکشن اتھارٹی PTAکے ڈیٹا بیس تک رسائی ہو تاکہ فریق مقدمہ کو طلب کرنے میں آسانی ہوسکے۔

نادرا کے عملہ نے کمیٹی کو یقین دلایا کہ ان کا محکمہ اس ضمن میں معاونت کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ ضلعی عدالتوں کے عملے کو اس امر کا پابند بنایا جائے کہ وہ دائری کے وقت مقدمہ کی فائل کی مکمل پڑتال کرے اور نامکمل فائلیں قبول نہ کرے۔ اس مقصد کیلئے چیک لسٹ مرتب کی جائے تاکہ وکلاء اور ان کے کلرکوں نیز سائلین کو علم ہو کہ انہیں مقدمہ دائر کرتے وقت کون سی دستاویزات منسلک کرنی ہیں۔

اس ضمن میں ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ میں مروج طریقہ کار پر عمل کیا جائے۔ عدالتوں میں مقدمات کی بھرمار اور زیر التواء مقدمات کو ختم کرنے کیلئے عارضی یا مستقل بنیادوں پر بڑے پیمانے پر جج صاحبان کی تقرری عمل میں لائی جائے۔ آبادی اور مقدمات کے تناسب سے جج صاحبان اور جوڈیشل مجسٹریٹ صاحبان کی تعداد میں اضافہ کیا جائے۔تمام جج صاحبان(سول جج سے جج سپریم کورٹ تک) کی وقتاً فوقتاً ٹریننگ ہوتی رہنی چاہئے۔

ان کی قانونی اور فیصلہ سازی کے کام میں مہارت کیلئے ٹریننگ کا مربوط شیڈول مرتب ہونا چاہئے ۔ اِس ضمن میں انہیں دنیا بھر میں مقدمات کے فیصلوں کیلئے کارآمد ٹیکنیکس سے بھی آگاہی دی جائے۔ نئے جج صاحبان کو کم از کم چھ ماہ تک ٹریننگ ایکڈمی اورسینئر جج صاحبان کے ساتھ عدالتی کام کی ٹریننگ دی جانی چاہئے۔فوجداری نظام عدل میں قانونسازی اور انتظامی اصلاحات کی سفارشتھانہ میں ایف آئی آر درج کروانے والے ہر شخص کو ایک تیار شدہ اقرار نامہ پر دستخط کرنا ہوں گے کہ اگر فراہم کردہ اطلاع یا شکایت جھوٹی اور من گھڑت ثابت ہوئی تو دفعہ 182کے تحت اُسے سخت دی جائے گی۔

جھوٹی اور من گھڑت ایف آئی آرز کی رجسٹریشن کو روکنے کیلئے ضابطہ فوجداری کی دفعہ182 میں ترمیم کرتے ہوئے مقدمہ جھوٹا ثابت ہونے کی صورت میں ذمہ دار فریق کو زیادہ سے زیادہ 7سال تک سزا دی جانی چاہئے۔ضابطہ فوجداری کی دفعہ161 کے تحت پولیس کو پابند بنایا جائے کہ وہ تمام بیانات فوراً، بروقت اور موقع پر ہی ریکارڈ کریں تاکہ تفتیش کے عمل میں بہتری آسکے۔

عدالت فوجداری مقدمہ کے جملہ مراحل کی تاریخ ہائے سماعت کے تعین کیلئے فریقین کی موجودگی میں شیڈیولنگ کانفرنس کرے۔ جس میں دونوں فریقین اور ان کے وکلاء کو پابند کردیا جائے تاکہ مقدمہ کی سماعت میں التواء کا مکمل خاتمہ ہوسکے۔ فریقین تمام ممکنہ درخواست ہائے ایک ہی تاریخ پر عدالت میں دائر کریں ۔ آئندہ تاریخ پر فریقین ایکدوسرے کی درخواستوں کے جواب جبکہ اگلی تاریخ پر عدالت تمام درخواستوں پر اپنا فیصلہ سنا دے گی۔

اس کے بعد کسی بھی فریق کو متفرق درخواستیں دینے کی اجازت نہ ہوگی۔ مقدمات کے حتمی چالان کو 14دن کے اندر عدالت میں پیش کرنے کو یقینی بنایا جایا۔ تغافل برتنے والے پولیس افسر کے خلاف کارروائی کی جائے۔ حکومت سنگین جرائم اور دہشت گردی کے مقدمات سے متعلق جج صاحبان، پراسیکیوٹرز اور گواہوں کو فول پروف سیکورٹی فراہم کرنے کے بارے میں انتظامات کو یقینی بنائے۔

دہشت گردی اور سنگین جرائم کا ٹرائل ویڈیو کانفرنس کے ذریعے عمل میں لایا جائیہر جوڈیشل مجسٹریٹ کوکم تعداد میں مقدمات سپرد کئے جائیں۔ زیادہ بہتر ہوگا کہ ہر ایک تھانہ سے متعلقہ مقدمات کے ٹرائل کے لئے الگ الگ مجسٹریٹ ہو۔ آبادی اور مقدمات کے تناسب سے مجسٹریٹ صاحبان کا تقرر عمل میں لایا جائیعدالتی افسر کو صرف سول جج یا صرف مجسٹریٹ کے فرائض سونپے جائیں۔

ہر عدالتی آفیسر ایک ہی نوعیت کے مقدمات کی سماعت کرے۔ بیک وقت بہت سی نوعیت کے مقدمات نہ سونپے جائیں۔ پاکستان بار کونسل اور ہائیر ایجوکیشن باہمی اشتراک سے لیگل ایجوکیشن دینے والے اداروں کے لئے سخت سٹینڈرڈز وضع کریں اور پھر ان پر کڑی نظر رکھیں۔ بار کونسل ایکٹ کی دفعہ 41میں درج پیشہ وارانہ اخلاقیات کے اصولوں کو سختی کیساتھ نافذ کیا جائے۔

بار کونسل ایکٹ کی دفعہ41 میں ترمیم کی جائے اور مس کنڈکٹ کے مرتکب وکیل کو کم از کم جرمانہ کی حد مبلغ پچاس ہزار روپے مقرر کی جائے۔ وکلاء کو لائسنس جاری کرنے کے عمل میں مزید بہتری:وکالت کا لائسنس دینے کیلئے انٹری ٹیسٹ اور انٹرویو کے معیار کو بہتر بنایا جائے تاکہ نااہل امیدواروں کو پیشہ وکالت میں داخل ہونے سے روکا جاسکے۔ لینڈ مافیا اور قبضہ گروپوں کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کے پیش نظر تعزیرات پاکستان میں غیر قانونی قبضوں اورCriminal Tresspass کے بابت موجود دفعات میں سزاکو زیادہ سے زیادہ سخت کیا جائے تاکہ لوگوں کو ان مافیاز سے تحفظ فراہم کیا جاسکے۔

ماحولیات کے تحفظ اور آلودگی کے خاتمے کیلئے سزاؤں کو زیادہ سخت کیا جائے: ` ملک میں صنعتی ترقی کے لئے ناگزیر ماحولیات کے تحفظ نیز آلودگی کے خاتمے کیلئے تعزیرات پاکستان کی دفعات477, 478, 490, 491 میں دی گئی سزاؤں میں اضافہ کیا جائے تاکہ مئوثر انداز میں شکایات کا ازالہ کیا جاسکے۔ انٹلیکچئول پراپرٹی کے قانون کو موثر اور سزاؤ ں کو سخت کیا جائے: ` Intellectual Propertyکو تحفظ دینے کے لئے قانون کا زیادہ مئوثر بنایا جائے تاکہ کمرشل سیکٹر میں جعلسازی اور نقالی کو روکا جاسکے۔

تعزیرات پاکستان میں چیک کے ڈس آنر ہونے کی سزا کو چیک کی رقم سے مربوط کیا جائے، مثلاً ایک لاکھ تک کے چیک پر6 ماہ سزا، پانچ لاکھ تک کے چیک پر3 سال سزا، دس لاکھ تک کے چیک پر5 سال سزا اور دس لاکھ سے زائد کے چیک پر 7سال سزا۔ پولیس کی تفتیش کے معیار کو بہتر بنانے کیلئے وسیع تر پیمانے پر انتظامی اصلاحات عمل میں لائی جائیں، جس میں تفتیش کے جدید انداز اور طریقہ ہائے کار، زیادہ سے زیادہ فارینسک لیبارٹریوں کا قیام، دوران ملازمت ہر سطح پر ٹریننگ نیز بہتر ورکنگ حالات کے لئے ضروری فنڈز مہیا کئے جائیں۔

پولیس افسران اور اہلکاروں کی کارکردگی پر گہری نظر رکھنے کیلئے لائحہ عمل مرتب کیا جائے تاکہ نااہل، بددیانت اور بدعنوان عناصر کو سخت سزا دی جاسکے۔ پولیس کے فرائض کو واضح طور پر تقسیم کردیا جائے۔ تفتیش کا شعبہ انتظامی لحاظ سے قطعی طور پر الگ کردیا جائے۔ تفتیشی افسران صرف تفتیش کے فرائض سر انجام دیں ۔ ان کا لاء اینڈ آرڈر یا دیگر فرائض کی انجام دہی سے کوئی تعلق نہ ہو۔

مقدمہ کے چالان کو14 دن کے اندر عدالت میں پیش کیا جانا یقینی بنایا جائے،مقدمات کے حتمی چالان کو 14دن کے اندر عدالت میں پیش کرنے کو یقینی بنایا جایا۔ تغافل برتنے والے پولیس افسر کے خلاف کارروائی کی جائے۔ جج، گواہوں اور پراسیکیوٹرز کی سیکورٹی کے فول پروف انتظامات،حکومت سنگین جرائم اور دہشت گردی کے مقدمات سے متعلق جج صاحبان، پراسیکیوٹرز اور گواہوں کو فول پروف سیکورٹی فراہم کرنے کے بارے میں انتظامات کو یقینی بنائے۔

دہشت گردی اور سنگین جرائم کا ٹرائل ویڈیو کانفرنس کے ذریعے عمل میں لایا جائے: دہشت گردی، قتل اور تمام سنگین جرائم میں ملوث ملزمان کو عدالت میں لائے جانے کی بجائے ان کا ٹرائل ویڈیو کانفرنس کے ذریعہ عمل میں لایا جائے۔ ہر جوڈیشل مجسٹریٹ کوکم تعداد میں مقدمات سپرد کئے جائیں۔ زیادہ بہتر ہوگا کہ ہر ایک تھانہ سے متعلقہ مقدمات کے ٹرائل کے لئے الگ الگ مجسٹریٹ ہو۔ آبادی اور مقدمات کے تناسب سے مجسٹریٹ صاحبان کا تقرر عمل میں لایا جائیعدالتی افسر کو صرف سول جج یا صرف مجسٹریٹ کے فرائض سونپے جائیں۔ ہر عدالتی آفیسر ایک ہی نوعیت کے مقدمات کی سماعت کرے۔ بیک وقت بہت سی نوعیت کے مقدمات نہ سونپے جائیں۔ `

متعلقہ عنوان :