Live Updates

قومی اسمبلی ، تحریک انصاف کے ارکان کو ڈی سیٹ کرنے کی تحریک پر پارلیمانی جماعتیں تقسیم

ایم کیو ایم اور جے یو آئی (ف) کا تحریک پر مزید اتفاق رائے کیلئے 3 دنوں کیلئے موخر کرنے کا مطالبہ

منگل 4 اگست 2015 15:26

اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔04اگست۔2015ء ) قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کے 28 ارکان کو ڈی سیٹ کرنے کی تحریک پر بحث کے دوران پارلیمانی جماعتیں منقسم ہوگئیں ، تحریک کی محرک جماعت ایم کیو ایم اور جے یو آئی (ف) نے تحریک پر مزید اتفاق رائے کیلئے اسے 3 دنوں کیلئے موخر کرنے کا مطالبہ کردیا ، اے این پی ، مسلم لیگ ضیاء گروپ ، پختونخوا میپ سمیت حکمران مسلم لیگ (ن) نے بھی تحریک کو اتفاق رائے کیلئے موخر کرنے کی حمایت کردی جبکہ پی پی پی ، جماعت اسلامی ، عوامی مسلم لیگ ، فاٹا ارکان سمیت پی ٹی آئی نے مطالبہ کیا ہے کہ معاملے کو مزید لٹکانے کی بجائے تحریک پر آج کے روز ہی رائے شماری کرا کر اسے نمٹایا جائے ، پی ٹی آئی کے ارکان نے تحریک پر کسی فیصلہ سے قبل ایوان میں کی کارروائی میں شرکت سے انکار کرتے ہوئے واک آؤٹ کردیا ۔

(جاری ہے)

منگل کو پی ٹی آئی کو ڈی سیٹ کرنے کی تحریک پر مولانا فضل الرحمن ، فاروق ستار ، محمود خان اچکزئی ، شیخ رشید ، اعجاز الحق ، سید خورشید شاہ ، عبدالرشید گوڈیل ، جی جی جمال ، اعجاز جاکھرانی ، خواجہ سعد رفیق اور دیگر نے اظہار خیال کیا ۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ اگر ان تحاریک کو ایک ہفتے کیلئے موخر کیا گیا تھا تو مزید کچھ دن دیئے جائیں تاکہ ہم دوسرے پارٹیوں کے ساتھ مل کر اس پر بات کرسکیں ۔

انہوں نے کہا کہ 1 ہفتے میں ہم سے کوئی بات نہیں کی گئی ، وزیراعظم سے ملاقات میں یہ ایجنڈا نہیں تھا ، ان سے ملاقات مین کشمیر کمیٹی کے حوالے سے بات کی گئی ، اس موقع پر ایم کیو ایم کے پارلیمانی لیڈر فاروق ستار نے کہا کہ ہم نے آئین اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے تحریک پیش کی ۔ ہم نے اس وقت یہ تحریک پیش کی جب تحریک انصاف مسلسل 40 روز تک ایوان سے بغیر کسی وجہ کے غیر حاضر تھی ، ہمیں پوائنٹ سکورنگ نہیں کرنی چاہیے ، پوائنٹ سکورنگ کیلئے دوسرے فورم بھی ہیں مگر آئین و قانون کیا کہتا ہے ، ہمیں متبادل راستہ نکالنا چاہیے ۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کی خواہش کا احترام کرتے ہیں ، ذرائع ابلاغ میں چہ مگوئیاں ہورہی ہیں کہ جے یو آئی وزارت لے کر اس معاملے پر اپنا فیصلہ تبدیل کرلے گی ، ایسا نہیں کہنا چاہتے ہیں ، مگر یہاں مدعی سست اور گواہ چست والی بات ہے ، پختوانخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ یہاں سب آئین کی بالا دستی چاہتے ہیں ، ہم پارلیمان کے دشمن نہیں ہیں یہاں سے ایک متفقہ فیصلہ جانا چاہیے کہ جمہوریت کی بقاء کیلئے ایک ہوگئے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف کو عوامی مینڈیٹ حاصل ہے ، پاکستانی سیاست پل میں تولہ پل میں ماشہ والی سیاست ہے ۔ ایم کیو ایم پر بڑے واقعات میں ہاتھ نہیں ڈالا گیا ، 12 مئی کے واقعات پر نوٹس نہیں لیا گیا ۔ تحریک انصاف کی طرف سے ایک معافی معاملے کو حل کردے گی ،

عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے کہا کہ مولانا فضل الرحمن اگر مان جائیں تو ایم کیو ایم کو ہم منا لیں گے ، لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ پارلیمان میں مذاق ہورہا ہے ، ایک طرف سیلاب آرہا ہے ، یہاں غریب کے بچے کو ماہانہ 200 روپے ماہانہ وظیفہ نہیں دیا جاسکتا ، ہمیں عوامی مسائل کو حل کرنا چاہیے ۔

سعد رفیق نے کہا کہ ہر چیز کو شک کی نظر سے دیکھنا درست نہیں، پی ٹی آئی کو ڈی سیٹ کرنے کی کوئی سازش نہیں ہو رہی، دھرنے سے لوگوں کے دل زخمی ہوئے ہیں، اس بات کو تسلیم کیا جانا چاہیے، ایم کیو ایم اور مولانا فضل الرحمن سے مشاورت جاری ہے، جلدی میں فیصلہ نہیں کرنا چاہیے، پی ٹی آئی کے مینڈیٹ کو تسلیم کرتے ہیں، پی ٹی آئی ایوان کے باہر دوسروں کو گالیاں دینا بند کر دے، تحریک انصاف غصہ کرنا چھوڑ دے، کچھ مزید وقت دیا جائے ہم اتفاق رائے کی کوشش کر رہے ہیں۔

عبدالرشید گوڈیل نے کہا کہ پی ٹی آئی کے لہجے میں کوئی تبدیلی نہیں آ رہی، انہوں نے سیاسی ہزیمت سے کچھ نہیں سیکھا۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ایوان میں پی ٹی آئی کی غیر حاضری کی تحریک زیر بحث تھی مگر شاہ محمود نے استعفوں کا معاملہ بھی چھیڑ دیا، استعفیٰ جب پیش کر دیا جائے تو وہ منظور ہو جاتا ہے، سپیکر کے منظور کرنے یا منظور نہ کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، ماضی میں ارکان کے استعفے بغیر کسی تحقیق کے منظور کئے گئے، اگر ابھی پی ٹی آئی والے کہہ دیں کہ وہ استعفے ہم نے نہیں دیئے تو ہم مان لیں گے، ہمارے خیال میں سپیکر کی رولنگ غیر آئینی تھی، پی ٹی آئی کے پاس جب ارکان اور اسمبلی کیلئے گالیاں کا سٹاک ختم ہو گیا تو وہ ایوان میں آ گئے، میری درخواست ہے کہ تحریک کو 3دن کیلئے موخر کر دیا جائے۔

اعجاز الحق نے کہا کہ تحریک انصاف کی پارلیمنٹ میں واپسی اچھی اقدام ہے، پی ٹی آئی 40دنوں کی غیر حاضری سے صرف نظر کی تحریک پیش کرے اور ایوان منظور کر دے تو بھی مسئلہ حل ہو سکتا ہے، دوسری صورت تحریک پر رائے شماری کی ہی ہے، پارلیمنٹ کے اندر پی ٹی آئی کی ضرورت ہے۔ مظفر ظفر اللہ خان جمالی نے کہا کہ پارلیمنٹ پر پی ٹی آئی کے حملے اور دھرنے کو نہیں بھول پاؤں گا، فیصلے میں تاخیر نہ کی جائے کیونکہ انصاف میں تاخیر انصاف کی عدم فراہمی تصور کی جاتی ہے، سپیکر کو اس بارے خد کوئی فیصلہ کرنا چاہیے، تحریک انصاف جس اسمبلی کو جھوٹا قرار دیتے تھے اسی میں منت و سماجت کر کے واپس آنا چاہتے ہیں، اگر تحریک انصاف نے استعفیٰ دیا تو اسے آنر کریں اور اگر واپس آنا چاہتے ہیں تو پھر اس کا اعلان کریں کہ استعفے واپس لیتے ہیں، نواز شریف کو ووٹ دیا ہے اس کے ساتھ کھڑا رہوں گا، ارکان سچ بولنا سیکھیں، سچ نہیں بولیں گے تو پارلیمنٹ کی کوئی عزت اور قدر نہیں رہے گی۔

Live پاکستان تحریک انصاف سے متعلق تازہ ترین معلومات