جعلی ڈگری اور ڈومیسائل کی تصدیق کیلئے ادارہ بنانا چاہیے۔ وزیر مملکت برائے داخلہ

پیر 3 اگست 2015 21:00

اسلام آباد ۔ 3 اگست (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔03اگست۔2015ء) وزیر مملکت برائے تعلیم و تربیت انجینئر بلیغ الرحمن نے کہا ہے کہ پارلمنٹرینز کے کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال، مخالف امیدوار، میڈیا کرتے ہیں، کوئی زیادہ پارلیمنٹرینز جعلی ڈگری ہولڈر نہیں تھے، ہمیں اس مرض کے خلاف مل کر لڑنا ہے، حکومت سنجیدہ ہے، پاکستان کی ڈگریوں کو تسلیم کرنے والے اداروں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، ایگزٹ کئی سالوں سے کام کر رہا ہے، ایسے اداروں پر ہاتھ ڈالا جا رہا ہے۔

پیر کو ایوان بالا میں سینیٹر سلیم ضیاء نے ملک میں جعلی ڈگریوں یا اسناد کے اجراء کے بعد سے پیدا ہونے والی صورتحال پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ جو ادارے اس میں ملوث ہے یہ صرف ایک ادارہ نہیں، پورے پاکستان کی دنیا میں بدنامی ہوئی ہے اس کی تحقیقات ہونی چاہیے تاکہ اصل حقائق سامنے آئیں، اس کے پردے کے پیچھے جو مجرم ہیں ان کو بھی سامنے لایا جائے۔

(جاری ہے)

سینیٹر اعظم سواتی نے کہا کہ اس تحریک سے معزز رکن نے ہمارے ضمیر کو جھنجھوڑا ہے، بہت سے جعلی ڈگریوں کے حوالے سے عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹائے، بہت سے مقدمات نمٹائے، آج حالات کافی بہتر ہوئے، آج بھی ہزاروں کی تعداد میں جعلی ڈگریوں پر بھرتی لوگ بڑے بڑے عہدوں کی زینت بنے ہوئے ہیں، آئین و قانون کی پاسداری سے ہی ملک چل سکتے ہیں۔ عثمان خان کاکڑ نے کہا کہ جعلی ڈگریوں کا رواج جنرل مشرف کے دور میں پڑا، اس ملک کے ہر محکمہ اور پارلیمنٹ میں جعلی ڈگری والے لوگ بیٹھے ہیں۔

طاہر مشہدی نے کہا کہ تمام ملکی اور غیر ملکی سطح پر جاری ہونے والی ڈگریوں کا ڈیٹا نادرا کے پاس ہونا چاہیے۔ سینیٹر جنرل (ر) عبدالقیوم خان نے کہا کہ ایسا میکنزم ہونا چاہیے کہ کسی جگہ پر نوکری کے لئے درخواست دینے پر ان کی جانچ پڑتال ہونی چاہیے، جو بندہ دوسروں کا حق مار کر نوکری لیتا ہے کچھ بھی کر سکتا، ایسے لوگوں سے جان چھڑانا ملکی مفاد میں ہے۔

سینیٹر میر کبیر نے کہا کہ جدید دور میں ڈگریوں کی تصدیق کے لئے پانچ پانچ سال کیوں لگتے ہیں، کئی اراکین اس طرح اپنے پانچ سال پورے کر رہے ہیں، ملک کی ساکھ بچانے، اس کے خلاف کارروائی کی جائے، جعلی ڈومیسائل پر ملازمتیں عام ہیں، جعلی ڈگری اور ڈومیسائل کی تصدیق کیلئے ادارہ بنانا چاہیے۔ وزیر مملکت برائے داخلہ انجینئر بلیغ الرحمن نے بحث سمیٹتے ہوئے کہا کہ ایسے لوگ بہت بڑے جرم کے مرتکب ہو رہے ہوتے ہیں، دوسروں کا حق بھی مارتے ہیں، حکومت اس کو سنجیدگی سے لے رہی ہے، فیڈرل بورڈ کا سرٹیفکیٹ کے لئے پروسیجر فعال ہے، یہاں پر جعلسازی کے کیسز نہ ہونے کے برابر ہیں، حکومت نے ڈگریوں کی تصدیق کرانا شروع کی ہے، فیڈرل گورنمنٹ نے ون ونڈو جو سسٹم متعارف کرایا ہے باقی صوبوں سے بھی شیئر کر رہے ہیں، ایچ ای سی پر آج تک انگلی نہیں اٹھی کہ غلط ڈگریوں کی تصدیق کی ہے، حکومت کا زیرو ٹالرنس ہے، ایگزٹ کئی سالوں سے کام کر رہا ہے، ایسے اداروں پر ہاتھ ڈالا جا رہا ہے، دنیا میں بدنامی ضرور ہوئی تاہم اس سے کالی بھیڑیں بے نقاب ہوئیں، پارلمنٹرینز کے کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال، مخالف امیدوار، میڈیا کرتے ہیں، کوئی زیادہ پارلیمنٹرینز جعلی ڈگری ہولڈر نہیں تھے، ہمیں اس مرض کے خلاف مل کر لڑنا ہے، حکومت سنجیدہ ہے، پاکستان کی ڈگریوں کو تسلیم کرنے والے اداروں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

متعلقہ عنوان :