فوڈ سیفٹی ریگولیٹری اتھارٹی کے قیام کے لیے تاجر برادری حکومت پر زور ڈالے ٗڈاکٹر مبارک احمد

خوراک پر جانچ کا نظام نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان میں شوگر اور کینسر کے سب سے زیادہ مریض ہیں ٗ خطاب

پیر 3 اگست 2015 18:16

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔03اگست۔2015ء) محکمہ پلانٹ پروٹیکشن کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر مبارک احمد نے فوڈ سیفٹی کی اہمیت اجاگر کرتے ہوئے کراچی کی تاجروصنعتکار برادری کو مشورہ دیا ہے کہ وہ فوڈ سیفٹی ریگولیٹری اتھارٹی کے قیام کے لیے حکومت پر زور ڈالے۔فوڈ سیفٹی ریگولیٹری اتھارٹی کے قیام کا بل طویل عرصے پہلے تیار کیا گیا تھا لیکن اس حوالے سے کوئی بھی پیش رفت نہیں ہوسکی لہٰذا تاجروصنعتکار برادری کو چاہیے کہ وہ اتھارٹی کے قیام کے لیے آواز بلند کرے۔

اگر اتھارٹی کا قیام عمل میں آتا ہے تو اعلیٰ معیاری زرعی مصنوعات کے ذریعے عالمی مارکیٹوں تک پاکستان کی رسائی کو مزید بہتر بنایا جاسکتا ہے۔خوراک پر جانچ کا نظام نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان میں شوگر اور کینسر کے سب سے زیادہ مریض ہیں۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہارڈاکٹر مبارک احمد نے کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے دورے کے موقع پر اجلاس سے خطاب میں کیا۔

اس موقع پرکے سی سی آئی کے صدر افتخار احمد وہرہ، نائب صدر آغا شہاب احمد خان، سابق صدر کے سی سی آئی محمد ہارون اگر، مجید عزیز، منیجنگ کمیٹی کے اراکین اور اجناس کے کاروبار سے وابستہ تاجر بھی موجود تھے۔اجلاس کے دوران کے سی سی آئی کے نائب صدر آغا شہاب احمد خان،سابق صدر محمد ہارون اگر اور انیس مجید پر مشتمل خصوصی کمیٹی بھی قائم کی گئی جس کا مقصد محکمہ پلانٹ پروٹیکشن کے حوالے سے تاجروں کودرپیش مسائل کاجائزہ لینا اوراس سے نمٹنے کے لیے ڈائریکٹر جنرل کو مسائل سے آگاہ کرنا ہوگا تاکہ تاجروں کے مسائل کوجلد سے جلد حل کر کے ان کے نقصانات اور مشکلات کو کم سے کم کیاجاسکے۔

ڈاکٹر مبارک احمد نے کہاکہ انہوں نے ہمیشہ پاکستان کی تجارت کے فروغ کے نقطہ نظر کو مد نظر رکھا۔ دنیا بھر میں درآمدات اور برآمدات کو ریسرچ اور ڈیولپمنٹ ( آر اینڈ ڈی) کا بیک اپ حاصل ہوتا ہے مگر بدقسمتی سے پاکستان میں اس قسم کا کوئی آر اینڈ ڈی نہیں جو کہ ایک سنجیدہ اور سنگین مسئلہ ہے اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔انہوں نے محکمہ پلانٹ پروٹیکشن کا دفاع کرتے ہوئے کہاکہ محکمہ اس وقت منتقلی کے عمل سے گزر رہا ہے جبکہ آپریشنز کو بھی کارگر بنایا جارہا ہے تاکہ محکمے میں موجود کمیوں کو دور کیا جاسکے۔

مارکیٹ میں اچھے اور برے دونوں طرح کے کھلاڑی موجود ہیں لیکن ہم کبھی بھی برے کھلاڑیوں کو درآمد کی گئی غیر معیاری اجناس کوپاکستانی مارکیٹوں میں لا کر انسانی جانوں سے کھیلنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ڈائریکٹر جنرل نے کلیئرنگ ایجنٹس کو کنسائمنٹس کی کلیئرنس میں تاخیر کی وجہ قرار دیا جو محکمہ پلانٹ پروٹیکشن کو ادائیگی کے نام پر چارجز کا مطالبہ بھی کرتے ہیں۔

یہ کلیئرنگ ایجنٹس تاجروں کودھوکا دیتے ہیں جبکہ محکمہ اپنی خدمات کے عیوض کبھی بھی کوئی چارجز نہیں لیتا۔انہوں نے یورپی یونین کوبرآمد کیے گئے بڑی تعداد میں پاکستانی آموں کی کھیپوں کے رد ہونے اور یورپی یونین کی جانب سے پانچ مذید کنسائنمنٹس ردہونے پر پاکستانی آموں کی درآمد پر مکمل پابندی لگانے کی وارننگ کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ محکمہ پلانٹ پروٹیکشن نے گزشتہ سال اس کا سنجیدگی سے نوٹس لیا اور یورپی یونین کو اعلیٰ معیاری آموں کی برآمدات یقینی بنانے کے لیے کوششیں کیں۔

اس کے نتیجے میں یورپی یونین کی جانب سے روک تھام کے سلسلے میں میں تیزی سے کمی واقع ہوئی اور اس کااندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ برس آموں کو روکنے کاکوئی ایک بھی واقعہ پیش نہیں آیا البتہ 2015 میں صرف تین واقعات سامنے آئے۔انہوں نے کہاکہ ایک سال کے مختصر عرصے میں ہاٹ واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا جو ایک سے بڑھ کر29تک ہو گئی ہے جس میں 8پلانٹ کراچی میں قائم ہیں اور یہ ایک منافع بخش کاروبار بن گیا ہے جس سے یورپ کے لیے آم کی برآمدات کو دگنا کرنے میں مدد ملی ہے۔

اسی طرح یورپ کو سبزیوں کی برآمدات کے حوالے سے2015میں برآمدات روکنے کاکوئی بھی واقعہ پیش نہیں آیا۔انہوں نے کہاکہ پاکستان کی برآمدات میں نمایاں اضافہ ہورہاہے۔ ہاٹ واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ کا قیام نہ صرف ایک منافع بخش کاروبار بن گیا ہے بلکہ رجسٹرڈ آم اور ترش پھلوں کے کھیتوں کے مالکان کو بھی ان کی پیداوار کے عیوض اچھی قیمتیں مل رہی ہیں۔

متعلقہ عنوان :