اسلام آباد میں اراضی واگزار کروانے کی مہم میں ذمہ دارانہ انداز اختیار کیا جائے‘ ایچ آر سی پی

پیر 3 اگست 2015 16:52

لاہور ( اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔03اگست۔2015ء) پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) نے سیکٹرآئی الیون) (II-I، اسلام آباد میں تجاوزات مخالف آپریشن میں مصروف حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ذمہ دارانہ انداز میں کارروائی کریں اور بے دخل ہونے والے لوگوں کی رہائشی ضروریات پر توجہ دیں۔کمیشن نے اپنے ایک بیان میں کہاکہ ”ایچ آر سی پی تجاوزات کو جائز قرار نہیں دیتا اور اراضی کو غیر قانونی قبضے سے واگزار کروانے کی ضرورت کو بخوبی سمجھتا ہے۔

تاہم، کمیشن کا سیکٹرII-I کی کارروائی میں مشغول حکام سے مطالبہ ہے کہ وہ اس بات کو بھی مدنظر رکھیں کہ ان کارروائیوں سے بے دخل ہونے والے لوگ کہاں جائیں گے۔حکام یقیناً اس حقیقت کا ادراک کرسکتے ہیں کہ آج خالی کروائی جانے والی کچی آبادیاں کوئی مثالی قیام گاہ نہیں ہیں اور وہاں رہائش پذیر لوگوں کے پاس کوئی اور چارہ ہوتا تو وہ وہاں ہرگز رہائش اختیار نہ کرتے۔

(جاری ہے)

نہایت احترام کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ حکام اس حقیقت سے صرف نظر کر رہے ہیں کہ جھونپڑیوں سے بے دخل ہونے والے لوگ کہیں غائب نہیں ہوجائیں گے۔ انہیں کسی اور جگہ اپنے لئے گھر تلاش کرنا پڑے گا۔ جس انداز سے یہ کارروائی کی جارہی ہے اس کی بدولت ریاست اپنے شہریوں کو رہائش اور دیگر سہولیات کی فراہمی کے فریضے کو بھی نظرانداز کر رہی ہے۔ہم پُرامید ہیں کہ حکومت اس کاروائی کے ساتھ ساتھ بے دخل ہونے والے گھرانوں کی آبادی کے طرائق کار پر غور کرے گی اور انہیں مناسب اور متبادل رہائش فراہم کرے گی۔

اس قسم کے اقدام کو تجاوزات کے خلاف موقف میں نرمی کے طور پر نہیں لیا جائے گا۔اس کے برعکس، اسے اپنے فرائض سے آشنا حکومت کی طرف سے ایک مہذب اور بامروت اقدام سمجھا جائے گا۔ ایچ آر سی پی کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ اُن لوگوں کے لیے باضابطہ قانونی کارروائی کو یقینی بنایا جائے جنہیں اپنے گھروں کی مسماری کے خلاف مزاحمت کرنے پر گرفتار کیا گیا تھا۔

مزید برآں، کچی آبادیوں میں جرائم پیشہ عناصر کی موجودگی کے امکانات کے باعث سیکٹرII-I میں کارروائی ضروری تھی تو محض’ مجرموں‘ کو منتشر کرنا کوئی معقول اقدام نہیں ہے۔اس مسئلے کا دوسرا پہلو کچی آبادیوں کے افغان اور غیر افغان مکین ہیں۔ اس حوالے سے، بے دخل افغانوں کو جس صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا، اسے بھی مدنظر رکھنا چاہئے۔ ان میں سے بیشتر پناہ گزین کیمپوں میں منتقل ہوجائیں گے۔ انہیں کیمپوں میں منتقل کرناسب سے بہتر اقدام ہی کیوں نہ ہو، یہ ایک عارضی حل ہے اور اس سے وطن واپسی کی پالیسی میں پائے جانے والے نقائض کی بھی نشاندہی ہوتی ہے جن پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

متعلقہ عنوان :