ملا عمر اور مولانا جلال الدین حقانی مظلوم اقوام کی آزادی اور خودمختاری کے تحفظ کی علامت بن چکے ہیں، رہتی دنیا تک مسلمان ان کو محمد بن قاسم ،صلاح الدین ایوبی، محمود غزنوی، سلطان ٹیپو اور سید احمد جیسے عظیم قائدین کی صف میں رکھ کر رہنمائی حاصل کرتے رہیں گے

جمعیت علماء اسلام (ف)کے سربراہ مولانا سمیع الحق کا ملا عمر اور مولانا جلال الدین حقانی کی وفات کی خبروں پر بیان

ہفتہ 1 اگست 2015 17:41

اکوڑہ خٹک ( اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ یکم اگست۔2015ء ) جمعیت علماء اسلام (ف)کے سربراہ اوردراالعلوم حقانیہ کے چانسلر مولانا سمیع الحق نے امارت اسلامی افغانستان کے سربراہ اور افغان تحریک طالبان کے بانی ملا محمد عمر مجاہد اور سوویت یونین کے خلاف جہاد شروع کرنے والے بنیادی پتھر اور تاریخ اسلام کے عظیم روسی جہاد کے ہیرو ، مولانا جلال الدین حقانی کی موت کی خبروں پر اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ دونوں لیڈر زندہ ہوں یا موت کا پیالہ پی چکے ہوں دونوں صورتوں میں اُن کی ذات سامراجی طاقتوں کے سامنے حمیت ،شجاعت،جرات و بہادری اسلامی ممالک اور پوری انسانیت کے مظلوم اقوام کی آزادی اور خودمختاری کے تحفظ کے لئے ایک آئیڈیل اور علامت بن چکے ہیں۔

رہتی دنیا تک مسلمان انہیں محمد بن قاسم ،صلاح الدین ایوبی، محمود غزنوی، سلطان ٹیپو شہید اور سید احمد شہید جیسے عظیم قائدین وفاتحین کی صف میں رکھ کر ان کے لازوال کردار سے رہنمائی حاصل کرتے رہیں گے ۔

(جاری ہے)

ہفتہ کواپنے ایک بیان میں انہوں نے کہاکہ ان کی ذات کو قیامت تک امت مسلمہ کا عظیم اثاثہ اور سنگ میل سمجھا جائے گا۔دونوں حضرات نے صیہونی اور صلیبی سازشوں سے نہ صرف افغانستان بلکہ پاکستان کی آزادی ،خودمختاری اورسالمیت کو تحفظ دیا ورنہ استعماری طاقتیں اب تک دونوں ممالک کو صفحہ ہستی سے مٹا چکی ہوتیں،یہ دونوں شیوخ پاکستان اورافغانستان دونوں کی آزادی کے عظیم ہیرو ہیں۔

جنہیں غیور اور محسن شناس قوموں کی طرح آج پاکستان کوبھی اِن کے شایان شان خراج عقیدت میں پیش پیش ہونا چاہیے تھا۔جبکہ یہ سبقت کل مصر کے تحریر اسکوائر میں جمع ہونے والے ہزاروں مصریوں نے حاصل کی۔موت برحق ہے،تاریخ بنانے والے ایسے افراد کی موت پر مشکل سے یقین کرنا پڑتا ہے،مگر ہمارے لئے ہمارے نبی برحق صلی اﷲ علیہ وسلم کی وفات پر پیش ہونے والی مثالیں بہترین رہنمائی کرتی ہیں ، حضرت عمرؓ تلوار سونت کر نبی کریم ؐ کی وفات کی خبر دینے والوں کے خلاف کھڑے ہوگئے مگر صدیق اکبر ؓ نے انبیاء کرام ؑ اور خود حضور اقدس ؐ کے بارے میں خبرِ وفات کی آیت برسراعلان کیا کہ اگر کوئی محمد ؐ کی عبادت کررہا تھا تو حضورؐ انتقال پا گئے ہیں لیکن اﷲ کی عبادت کرنے والوں کو معلوم رہے کہ اﷲ تعالیٰ حی و قیوم ہے۔

جو کبھی مرنے والا نہیں۔مولانا سمیع الحق نے کہا کہ اسلام میں جہاد و شہادت کا تعلق اشخاص سے نہیں مشن اور مقاصد سے ہوتا ہے۔ نبی کریم ؐ کا مشن قیامت تک جاری وساری رہے گا،اسی طرح شمع رسالت ؐ کے اِن دونوں سچے پروانوں ملا محمد عمر اور جلال الدین حقانی کا مشن و کردار بھی زندہ و تابندہ ہے اور رہے گا۔دونوں کو دو سپر پاورز کے غرور وبندارکو خاک میں ملانے کے لئے زندگی کے ہرلمحہ قربانیاں او رامت مسلمہ کے مضمحل رگوں میں نیا خون بن کر نئی زندگی اور نشاۃ ثانیہ بن کر رہیں گی۔

مولانا سمیع الحق نے یقین ظاہر کیا کہ کئی سالوں تک ملا عمر کی وفات اور حقانی کے بستر مرگ پر رہنے کے باوجود اِن کے جانثاروں نے شمع آزادی کو جلائے رکھا اور انہوں نے خبروں کو چھپائے رکھ کر سیاسی تدبر،اورجنگی حکمت عملی کا بہترین نمونہ پیش کیا۔ جس کی مثال تاریخ میں بہت کم ملتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ آج وہاں دشمن حالت نزع میں ہے اور جاں بلب ہے ،اُن کے پیرو افغان مجاہدین انشاء اﷲ اتفاق و اتحاد اور مکمل یکجہتی ،حکمت و تدبر سے افغانستان کو اس کے منظر مقصود آزادی اور نفاذ اسلام سے ہمکنار کریں گے۔

مولانا سمیع الحق نے کہا کہ دنیا جو بھی کہے اُن کی ذات ہم لاکھوں فرزاندان حقانیہ کے لئے قابل فخر اور توشہ نجات ہے۔مولانا جلال الدین حقانی جامعہ حقانیہ کے بانی شیخ الحدیث مولانا عبدالحق ؒ کے محبوب ،مخلص،معتمد اور چہیتے شاگرد تھے، جنہیں دارالعلوم حقانیہ کے مسندِ درس وتدریس سے اٹھا کر سرخ سامراج سوویت یونین کے خلاف صف آرا ہونے کے لئے ان کے اپنے ملک افغانستان بھیجا، اور جہاد میں انہیں اپنے جانشین کا خطاب دیا جس کاحق انہوں نے اپنے گھر کے ایک درجن سے زیادہ مردوں و خواتین کا نذرانہ دے کر ادا کیا۔

جس میں ان کے جوانِ رعنا بیٹے او رکئی بچیاں بھی شامل ہیں،اور خود آخر وقت تک جہالت کی تمنا لئے ہوئے لوگوں کو صبر و شکر کی تلقین کرتے رہے ،انہوں نے افغانستان میں بے سروسامانی کے عالم میں جہاد کی ابتداء کی اور اپنے رسول ؐ کی پیروی کرتے ہوئے شا ت الوجو(چہرے مسخ ہوگئے) پڑھتے ہوئے کنکریوں اور پتھروں سے روسی ٹینکوں ،بکتر بند گاڑیوں کو نشانہ بنایا ۔

پیٹرول ، مٹی کے تیل کی خالی بوتلوں کو بھر بھر کر کانواؤں کو نشانہ عبرت بنانے والے جلال الدین نے جہاد کی بنیاد رکھ دی۔ دونوں بڑی طاقتیں فرعونی غرور وپندار میں پوری امت کو مکھی اور مچھر سمجھ رہے تھے مگر آج فرعون و نمرود کی طرح خود ہی سامان عبرت بنے ہوئے ہیں ۔ان مجاہدین کمانڈروں نے حالت اسلام اور پوری امت محمدیہ کی ناک کٹنے سے بچا لی، محمد عربی ؐ کی لاج رکھ لی اور امت کا بھرم رکھا۔

مولانا سمیع الحق نے بیان کے آخر میں پوری عالم اسلام اور بالخصوص پاکستان کے حکمرانوں اور تمام مسلمانوں کو ان کا فرض یاد دلاتے ہوئے متوجہ کیا کہ وہ عالم کفر کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اُنہیں شایان شان خراج تحسین پیش کرنے کے لئے تعزیتی اجتماعات ریفرنس اور دعائیہ تقریبات کا اہتمام کریں، تمام مدارس اور مساجد میں بھی فاتحہ خوانی کا اہتمام کریں۔

اس میں پاکستان اور افغانستان او رعالم اسلام کی آزادی خودمختاری اور سلامتی کے تحفظ کے لئے دعا کریں۔ اس سلسلے میں مولانا سمیع الحق نے اعلان کیا ہے کہ دارالعلوم حقانیہ کے کھلتے ہی پانچ اگست بروز بدھ نئے تعلیمی سال کے افتتاحی تقریب میں ختم قرآن سے ایصال ثواب کیا جائے گا۔ انہوں نے ملک بھر کے علماء طلباء اور عوام کو اس دعائیہ تقریب میں شرکت کی دعوت دی ہے۔

متعلقہ عنوان :