پاکستان اور بیلا روس زراعت کے شعبہ میں تعاون برھانے کیلئے تین معاہدوں پر دستخط کریں گے

بیلا روس میں ایک کروڑ آباد ی کے لیے 16ہزار زرعی سائنسدان کام کر رہے ہیں ٗڈاکٹر افتخار احمد سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں تعاون دونوں ممالک کے لیے مددگار ثابت ہو گا ٗ بیان

جمعہ 31 جولائی 2015 17:57

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 31 جولائی۔2015ء) پاکستان اور بیلا روس زراعت کے شعبہ میں تعاون برھانے کیلئے تین معاہدوں پر دستخط کریں گے۔ بیلاروس کے زرعی سائنسدانوں کے چار رکنی وفد نے پاکستانی زرعی تحقیقاتی کونسل کے سائنسدانوں سے زراعت اور لائیو سٹاک کے مختلف شعبہ جات کے حوالے سے بات چیت کی۔ دونوں ممالک زراعت کے میدان میں بھر پور ضلاحیت رکھتے ہیں جیسا کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور بیلا روس بھی سائنس ٹیکنالوجی کے استعمال کی بدولت اپنے زرعی شعبے کو ترقی دے رہا ہے۔

جمعرات کو بیلا روس کے 4رکنی زرعی سائنسدان کے وفد نے قومی زرعی تحقیقاتی سینٹر (این اے آر سی ) کا دورہ کیا ۔اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے پاکستان زرعی تحقیقاتی کونسل کے چئیرمین ڈاکٹر افتخار احمد نے کہا کہ دنیا میں زراعت کی اہمیت کے حوالے سے بات کی اور کہا کہ بیلا روس میں ایک کروڑ آباد ی کے لیے 16ہزار زرعی سائنسدان کام کر رہے ہیں۔

(جاری ہے)

جبکہ پاکستان میں حقیقت اسکے برعکس ہے یہاں 20 کروڑ کی آبادی کے لیے 600 زرعی سائنسدان ہیں۔

انہوں نے زرعی شعبہ میں بیلا روس کے تعاون کو سراہا۔ انہوں نے کہا کہ بیلا روس سے زرعی تعاون معاہدہ پاکستان کو چائنہ اقتصادی راہداری میں بھی بہت مدد دے گا۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم پاکستان کا آئندہ بیلاروس کے دورے کے دوران زراعت کو جدید تقا ضوں پر چلانے کے حوالے سے تین معاہدوں پر دستخط کیے جائیں گے۔ انہوں نے این اے آر سی کی انتظامیہ کو زرعی شعبہ پر مثبت اثرات مرتب کرنے والی بائیو اور نینو ٹیکنالوجی کی خدمات کو بھی سراہا۔

اپنے خطاب کے دوران بیلا روس کے اکیڈمی سیکرٹری میخیل نکی فروو نے کہا کہ بیلا روس نے مختلف زرعی اجناس متعارف کروائی ہیں جو پاکستانی زراعت میں بھی مدد گار ثابت ہو سکتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں تعاون دونوں ممالک کے لیے مددگار ثابت ہو گا‘ انہوں نے کہا کہ قومی زرعی تحقیقاتی مرکز ملکی زرعی تحقیق کا بہترین ادارہ ہے جو کہ ملک میں تحقیق اور زراعت کی بڑھوتی کے لیے کوشاں ہے۔

بیلا روس کے وفد نے این اے آر سی کراپ سائنس انسٹیٹیوٹ ، ایگری کلچر اور ہارٹیکلچر انسٹی ٹیوٹ ، فارم مشینری انسٹیٹیوٹ ، ہنی بی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ، اینمل سائنس انسٹی ٹیوٹ ، لائیو سٹاک ریسرچ سٹیشن اور بائیو ریمیڈیشن سائٹ کا دورہ بھی کیا۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے ڈائریکٹر جنرل سائنٹیفک پریکٹس سنٹر ، سیارہی یاکوچک نے کہا کہ ان کے ملک میں زرعی سائنسدانوں نے سات سالوں میں 200 سے زائد زرعی مشینری بنائی ہے انہوں نے کہا کہ ہم پاکستان کے زرعی شعبے کی بڑھوتی کے لیے ہر ممکن مدد کرنے کے لیے تیار ہیں۔

ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل این اے ایس بی پیا ترشکا نے اپنے تفصیلی خطاب میں جدید تحقیق سے جانوروں کی افزائش کے بارے میں بتایا انہوں نے کہا کہ ان کے ملک میں لائیو سٹاک کو جدید خطوط پر استوار کیا گیا ہے اور اسکے علاوہ انہوں نے مچھلی ، دودھ اور پولٹری سیکٹر میں مدد کی یقین دہانی کرائی ہے۔ ڈائریکٹر جنرل قومی زرعی تحقیقاتی مرکز ، ڈاکٹر محمد عظیم نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بیلاروس کا زرعی تعاون معاہدہ ہمارے ملک کے زرعی نظام کی بڑھوتی پر مثبت اثرات ڈالے گا۔ ڈاکٹر طارق حسن، پی اے ٹی سی او کے سربراہ اور ڈاکٹر ساجد مصطفی، ڈائریکٹر پی جی آر آئی نے بھی شُرکاء سے اپنے تجربات کو شئیر کیا۔

متعلقہ عنوان :