کچی آبادی کے خلاف آپریشن کر نے سے پہلے تمام تقاضے پورے کئے گئے ‘ شیخ آفتاب

جمعہ 31 جولائی 2015 15:26

اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 31 جولائی۔2015ء)قومی اسمبلی کو حکومت کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ کچی آبادی کے خلاف آپریشن کر نے سے پہلے تمام تقاضے پورے کئے گئے ‘ اسلام آباد میں کہیں جرائم پیشہ افراد قبضہ جمالیں تو حکومت کو ایکشن میں آنا پڑتا ہے جبکہ ڈپٹی سپیکر نے کہا ہے کہ ملا عمر کی ہلاکت کے حوالے سے پالیسی بیان دیا جائے جمعہ کو قومی اسمبلی میں نکتہ اعتراض پر عمران ظفر لغاری نے کہا کہ ملا عمر کے معاملے پر حکومت کی جانب سے کوئی وضاحتی بیان سامنے نہیں آیا۔

سپیکر نے وزیر مملکت شیخ آفتاب احمد کو ہدایت کی کہ اس حوالے سے پالیسی بیان پیر یا آج دینے کیلئے حکومت سے کہا جائے۔ اقبال محمد علی خان نے کہا کہ ان کے حلقہ کے کچھ جوان شادی میں شرکت کے لئے جا رہے تھے جنہیں سیکورٹیا داروں نے گرفتار کیا، پہلے تو پتہ ہی نہیں چل رہا تھا، لوگوں نے احتجاج کیا تو پولیس نے بتایا کہ وہ سیکورٹی اداروں کے پاس ہیں، 9 افراد کو رہا کر دیا گیا جن بچوں کو رہا نہیں کیا گیا وہ بھی بی کام کے سٹوڈنٹ ہیں، انہیں بھی بازیاب کرایا جائے یا گرفتاری کی وجہ بتائی جائے۔

(جاری ہے)

سپیکر نے ہدایت کی کہ سندھ حکومت سے رابطہ کیا جائے۔ ڈاکٹر نگہت شکیل نے کہا کہ حکومت نے گزشتہ روز سپریم کورٹ کے حکم پر اسلام آباد میں کچی بسی مسمار کرنے کا آپریشن کیا ہے، چاہیے تو یہ تھا کہ ان لوگوں کو متبادل جگہ فراہم کی جاتی، سپریم کورٹ نے کچھ کچھ فارم ہاؤسز بھی خالی کرانے کا حکم دیا تھا، ان کے خلاف بھی کارروائی کی جائے۔ ملک ابرار احمد نے کہا کہ اسلام آباد میں کچی بستی میں بہت سے افغانی رہ رہے تھے جس کی وجہ سے جرائم کی شرح بڑھ رہی تھی، انہیں متعدد مرتبہ نوٹس دیئے گئے مگر انہوں نے پرواہ نہیں کی بالآخر سپریم کورٹ جانا پڑا، حکومت کا یہ اچھا کام ہے، قبضہ مافیا کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔

شہریار آفریدی نے کہا کہ حالیہ بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے خیبرپختونخوا اور چترال بری طرح متاثر ہوئے ہیں، ان علاقوں میں این ڈی ایم اے موثر کردار ادا نہیں کر سکی۔ طاہرہ اورنگزیب نے کہا کہ کچی آبادیوں کو رواں ہفتہ میں بھی سی ڈی اے نے دو مرتبہ نوٹس جاری کئے، ہم نے مک مکا نہیں کیا، یہ بستیاں جرائم کی آماجگاہ ہے، ایک ایک گھر سے اسلحہ کے ڈھیرے ملے ہیں اور ان ہی بستیوں سے منشیات کا کاروبار ہوتا ہے۔

ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا کہ آپریشن میں عورتوں اور بچوں کے حقوق کا خیال نہیں رکھا گیا، غریب عوام پر بلڈوزر چلائے گئے، غریبوں کو بے گھر کرنا درست نہیں ہے۔ صاحبزادہ طارق اللہ نے کہا کہ کچی بستیوں میں مقیم افراد ایک طویل عرصہ سے رہائش پذیر تھے، عورتوں اور بچوں پر لاٹھی چارج کی تحقیقات کرائی جائیں، اگر وہاں افغان مہاجرین ہیں تو ان کے خلاف کارروائی کی مخالفت نہیں کرتے، پاکستانیوں کے ساتھ ظلم ہوا ہے۔

مولانا قمر الدین نے کہا کہ آئین کی پاسداری ہم سب کی ذمہ داری ہے اس کے تحت ہم نے حلف اٹھا رکھا ہے، ہمیں ملک اور قوم کی بہتری کے لئے کردار ادا کرنا چاہیے، جو بھی جماعت یا فرد اس کے برعکس کام کرے اس کا محاسبہ کیا جائے، دھرنوں سے جو نقصانات ہوئے اس کی باز پرس کی جائے۔ عبدالقہار ودان نے کہا کہ کچی آبادی آپریشن کے حوالے سے ارکان اسمبلی کی تجاویز کو مدنظر نہیں رکھا گیا، اگر وہاں پر افغان مہاجرین آباد ہیں تو انہیں اقوام متحدہ کے قانون کے مطاب مختص جگہ پر منتقل کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے، اس معاملے کی تحقیقات کے لئے کمیٹی قائم کی جائے۔

ساجد احمد نے کہا کہ سپریم کورٹ کے حکم پر کچی بستی کے خلاف آپریشن اچھا اقدام ہے، کراچی میں بھی افغان بستیاں جرائم کا گڑھ ہیں، ان کے خلاف بھی آپریشن کیا جائے۔ ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ ملک کی اکثریت غریب لوگوں کی ہے، انہیں رہائش فراہم کرنے کے لئے غریبوں کی بستی بنائی جائے۔ ڈپٹی سپیکر نے کہا کہ ناجائز قبضہ امیر کرے یا غریب قانون کی خلاف ورزی ہے۔

شیر اکبر خان نے کہا کہ جب سے افغان مہاجرین پاکستان آئے ہیں، بونیر میں بھی ایک کیمپ قائم ہے، اراضی مالکان کو اس کا معاوضہ نہیں دیا گیا۔ غلام سرور خان نے کہا کہ اسلام آباد کے دو بڑے سیکٹروں جی 12، ایف 12 پر امراء کا قبضہ ہے، ان دو سیکٹروں میں بھی تجاوزات ختم کرائی جائیں۔ مختلف ارکان نے نکتہ ہائے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے وزیر مملکت شیخ آفتاب احمد نے کہا کہ سی ڈی اے نے چھان بین کے بعد بعض کچی بستیوں کو قانونی قرار دیا اور ترقیاتی کام جاری ہیں، بات امیر اور غریب کی نہیں، قابضین کو بار ہا درخواست کی گئی نوٹس جاری کئے گئے، مگر کوئی شنوائی نہیں ہوئی، پھر عدالت کو فیصلہ کرنا پڑا۔

انہوں نے کہا کہ جی 12 اور ایف 12 میں بھی تجاوزات ہیں مگر لوگ عدالتوں سے حکم امتناعی حاصل کر لیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کوئی بھی ایکشن فوری طور پر نہیں لیا جاتا ‘ پہلے مذاکرات کا راستہ اختیار کیا جاتا ہے ‘نوٹس جاری ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں زمین کی خریداری کے حوالے سے پٹھان بلوچ اور پنجابی کا کوئی امتیاز نہیں ‘ تاہم اسلام آباد میں کہیں جرائم پیشہ افراد ڈیرہ جما لیں تو حکومت کو ایکشن میں آنا پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم معاملے کی تحقیقات کرانے کے لئے تیار ہیں۔ ڈپٹی سپیکر نے کہا کہ انسانی حقوق کے نام پر کسی کو قبضہ کرنے کا اختیار نہیں ہے۔