دہشت گردی کے بارے میں ابھرتی ہوئی نئی سوچ،پاک افغان تعلقات میں نئی انقلابی فکر، آرٹیکل 247میں تاریخی ترمیم، انتخابی اصلاحات اورپاک چین اقتصادی راہداری ، جسے ”گیم چینجر“کہا جارہا ہے جیسی تمام نشانیاں یہ بتا رہی ہیں کہ پاکستان اس فیصلہ کن چوراہے پر کھڑا ہے جہاں اسے اپنی قسمت کو ازسرنو لکھنے کے لیے نئے سفر کا آغاز کرنا ہے،یہ راہداری ایسی بیلٹ ہوگی جو وسطی ایشیاء، مشرق وسطیٰ اور افریقہ کو ملائے گی، ٹرکوں پر سامان کی ترسیل کی بجائے ریل کی پٹری بچھانے کے بارے میں سوچنا چاہئے ، دہشت گردی کے خلاف جنگ سے سب سے زیادہ بلوچستان، فاٹا اور خیبرپختونخوامتاثر ہوئے اور تاحال ان کے نقصان کا مناسب ازالہ نہیں کیا جا سکا

سابق سفیر مسعود خان، افراسیاب خٹک،سینیٹر فرحت اللہ بابرودیگر کا پاک چین اقتصادی راہداری بارے سیمینار خطاب

جمعہ 31 جولائی 2015 14:21

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 31 جولائی۔2015ء ) شہید بھٹو فاوٴنڈیشن کے زیراہتمام پاک چین اقتصادی راہداری کے حوالے سے سیمینار خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ دہشت گردی کے بارے میں ابھرتی ہوئی نئی سوچ،پاک افغان تعلقات میں نئی انقلابی فکر، آرٹیکل 247میں تاریخی ترمیم، انتخابی اصلاحات اورپاک چین اقتصادی راہداری ، جسے ”گیم چینجر“کہا جارہا ہے، جیسی تمام نشانیاں یہ بتا رہی ہیں کہ پاکستان اس فیصلہ کن چوراہے پر کھڑا ہے جہاں اسے اپنی قسمت کو ازسرنو لکھنے کے لیے ایک نئے سفر کا آغاز کرنا ہے،یہ راہداری ایسی بیلٹ ہوگی جو وسطی ایشیاء، مشرق وسطیٰ اور افریقہ کو ملائے گی، ٹرکوں پر سامان کی ترسیل کی بجائے ریل کی پٹری بچھانے کے بارے میں سوچنا چاہئے ، دہشت گردی کے خلاف جنگ سے سب سے زیادہ بلوچستان، فاٹا اور خیبرپختونخوامتاثر ہوئے اور تاحال ان کے نقصان کا مناسب ازالہ نہیں کیا جا سکا۔

(جاری ہے)

آصف خان نے تقریب کے موڈیریٹر کے فرائض انجام دیئے۔ اس موقع پر شہید بھٹو فاوٴنڈیشن کے چیف ایگزیکٹو آفیسر کمانڈر (ریٹائرڈ)ایم۔خالد شفیع نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ”اس وقت دہشت گردی کے بارے میں ابھرتی ہوئی نئی سوچ،پاک افغان تعلقات میں نئی انقلابی فکر، آرٹیکل 247میں تاریخی ترمیم، انتخابی اصلاحات اورپاک چین اقتصادی راہداری ، جسے ”گیم چینجر“کہا جارہا ہے، جیسی تمام نشانیاں یہ بتا رہی ہیں کہ پاکستان اس فیصلہ کن چوراہے پر کھڑا ہے جہاں اسے اپنی قسمت کو ازسرنو لکھنے کے لیے ایک نئے سفر کا آغاز کرنا ہے۔

پاکستان بلاشبہ ایک ایسی قوم کے طور پرفخر محسوس کر رہا ہے جسکا وقت آچکا ہے۔

“انھوں نے مزید کہا کہ ان سیمیناروں کا مقصد پاکستان کے عوام کو شعور دینا ہے کیونکہ وہ ہی اس ملک کی قسمت کے اصل نگہبان ہیں۔ مسعود خان نے پاک چین اقتصادی راہداری کی داخلی و خارجی حکمت عملی کے حوالے سے سٹریٹیجک خصوصیات پر روشنی ڈالی۔انھوں نے کہا کہ” یہ راہداری ایسی بیلٹ ہوگی جو وسطی ایشیاء، مشرق وسطیٰ اور افریقہ کو ملائے گی“۔

انھوں نے مختصراً ان میگا پروجیکٹس کی وضاحت کی جو اس راہداری سے وابسطہ ہیں اور ان کے دوررس اثرات بیان کئے جوبین الاقوامی سیاست کے اکھاڑے میں اکنامک کوریڈورسے منسلک ممالک کے کردار اورمقام پراثرانداز ہوں گے۔ یہ منصوبے ہمارے پیداوار اوراستعمال کے انداز کو تبدیل کر یں گے اور ایسا کرتے ہوئے یہ ہماری ترقی کے انداز کو بھی بدل دیں گے۔

انھوں نے دورہ ٴ پاکستان کے دوران مسٹرژی جن پنگ کے خیالات بار بار دہرائے کہ دونوں ممالک کے لوگوں کاآپس میں زیادہ سے زیادہ رابطہ ہونا چاہئے۔ ہمارے طلبہ، صحافیوں اورڈاکٹروں کو ایک دوسرے کے ساتھ ایکسچینج کرنے کی ضرورت ہے۔ مسعود خان نے چین میں بطور سفیر اپنے قیام کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ چین کی جامعات میں اردو سکھائی جا رہی تھی۔ ایسے اقدامات کو نہ صرف بڑھانا ضروری ہے بلکہ انھیں مزیدتیزی سے کیا جانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔

ڈاکٹر قیصر بنگالی نے شرکاء کوراہداری کے اقتصادی پہلووٴں سے آگاہ کیا۔اگرچہ انھیں راہداری سے وابسطہ صنعتوں کے بہت زیادہ تیزی سے پھیلاوٴکے تاثر پرشک تھالیکن پھر بھی ان کا خیال تھا کہ کوریڈور کے فوائد بلاشبہ کم نہیں ہیں لیکن انھیں کچھ مسائل کے ساتھ دیکھا جانا چاہئے۔انھوں نے تجویز دی کہ ٹرکوں پر سامان کی ترسیل کی بجائے ریل کی پٹری بچھانے کے بارے میں سوچنا چاہئے کیونکہ یہ زیادہ محفوظ اور سستا ذریعہ ہے۔