پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری اس وقت شدید بحران کی شکارہے ،اس وجہ سے40ٹیکسٹائل ملیں بندہوچکیں اورپیداوارایک گرگئی ہے، بھارت سے سوتی وریشمی دھاگے کی درآمدپرڈیوٹی میں اضافہ کیاجائے،حکومت ٹیکسٹائل کے شعبے کوگیس انفراسٹرکچرڈویلپنٹ سیس کی چھوٹ دے،بجلی کی بلاتعطل فراہمی یقینی بنائی جائے،ٹیکسٹائل کے شعبے کیلئے بجلی کا خصوصی ٹیرف متعارف کرایا جائے، انڈسٹریل گیس کنکشن پرعائدپابندی اٹھائی جائے،سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ٹیکسٹائل کی سفارش

جمعرات 30 جولائی 2015 23:44

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔30 جولائی۔2015ء) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ٹیکسٹائل نے کہا ہے کہ پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری اس وقت شدید بحران کی شکارہے جس کی وجہ سے40ٹیکسٹائل ملیں بندہوچکیں اورپیداوارایک گرگئی ہے، بھارت سے سوتی وریشمی دھاگے کی درآمدپرڈیوٹی میں اضافہ کیاجائے،حکومت ٹیکسٹائل کے شعبے کوگیس انفراسٹرکچرڈویلپنٹ سیس کی چھوٹ دے،بجلی کی بلاتعطل فراہمی یقینی بنائی جائے،ٹیکسٹائل کے شعبے کیلئے بجلی کا خصوصی ٹیرف متعارف کرایا جائے، انڈسٹریل گیس کنکشن پرعائدپابندی اٹھائی جائے، نئی سرمایہ کاری سکیم متعارف کرائی جائے، دیگرممالک کے ساتھ وقتاًفوقتاً کیے گئے آزادتجارتی معاہدوں،ترجیحی تجارتی معاہدوں اوردوطرفہ تجارتی معاہدوں پرں طرثانی کے ذریعے غیرملکی منڈیوں میں پاکستانی ٹیکسٹائل مصنوعات کیلئے گنجائش پیداکی جائے، ایف بی آرٹیکسٹائل انڈسٹری کے ریفنڈکلیم بروقت اداکرے جبکہ آل پاکستان ٹیکسٹائل ملزایسوسی ایشن کے صدرایس ایم تنویرنے کہاکہ ٹیکسٹائل انڈسٹری کوجی ایس پی پلس کاکوئی فائدہ نہیں ہواجبکہ بحران کے نتیجے میں ٹیکسٹائل برآمدات 13.7ارب ڈالرسے گرکر13.5ارب آگئی ہیں، چیئرمین قائمہ کمیٹی محسن عزیز نے کہاکہ ٹیکسٹائل انڈسٹری کوبحران سے نکالنے کیلئے پیداواری لاگت کم کرناضروری ہے حکومت اس حوالے سے سنجیدہ اقدامات کرے۔

(جاری ہے)

جمعرات کوسینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ٹیکسٹائل انڈسٹری کااجلاس چیئرمین محسن عزیزکی زیرصدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقدہواجس میںآ ل پاکستان ٹیکسٹائل ملزاسوسی ایشن کے چیئرایس ایم تنویرودیگرعہدیداروں نے قائمہ کمیٹی کے ارکان کوٹیکسٹائل انڈسٹری کے موجودہ بحران پرتفصیلی بریفنگ دی۔ انہوں نے کہاکہ ٹیکسٹائل انڈسٹری کاملکی جی ڈی پی میں حصہ8.5فیصدیعنی 20ارب ڈالرہے جبکہ یہ شعبہ38فیصدروزگارفراہم کرتاہے تاہم کچھ عرصہ سے یہ شعبہ شدیدبحران کاشکارہے، جس کی وجہ سے گزشتہ مالی سال کے دوران ٹیکسٹائل برآمدات 13.7ارب ڈالرسے گرکر13.5ارب ڈالرپرآگئیں جبکہ ہمیں یورپی یونین سے ملنے والے جی ایس پی پلس کابھی کوئی فائدہ نہیں ہوا۔

انہوں نے کہاکہ بحران کی وجہ سے40ٹیکسٹائل ملیں بندہوچکی ہیں جبکہ شعبہ ٹیکسٹائل کی پیداوارمیں ساڑھے تین ارب ڈالریعنی30فیصدکمی آچکی ہے۔ واضح رہے کہ ٹیکسٹائل کے شعبے میں ایک ارب ڈالرکی پیداوارسے دس لاکھ افرادکوروزگارملتاہے۔ انہوں نے کہاکہ خطے میں2006سے ابتک ویتنام میں ٹیکسٹائل کی پیداوارمیں230فیصد، بنگلہ دیش میں160فیصد، چین97فیصد، بھارت94فیصدجبکہ دنیامیں مجموعی طورپر44فیصداضافہ ہوا۔

اس کے برعکس پاکستان میں مذکورہ بالا عرصہ کے دوران ٹیکسٹائل کی پیداوارمیں خطے میں سب سے کم یعنی 22فیصداضافہ ہواجس کی بڑی وجہ حکومت کی عدم توجہی اورٹیکسٹائل کے شعبے کوترجیح نہ دیناہے۔ یہی وجہ ہے کہ بنگلہ دیش کی ٹیکسٹائل برآمدات میں 20فیصد، چین 14فیصداوربھارت کی ٹیکسٹائل برآمدات میں12فیصداضافہ ہوا۔ اس کے برعکس پاکستان کاعالمی سطح پرٹیکسٹائل برآمدات میں حصہ2.2فیصدسے گرکر1.8فیصدپرآگیا۔

انہوں نے کہاکہ ٹیکسٹائل انڈسٹری کے موجودہ بحران کی بڑی وجہ یہ ہے کہ بھارت نے توپاکستان سے سوتی دھاگے کی درآمدپر28فیصدریگولیٹری ڈیوٹی لعائدکررکھی ہے جبکہ پاکستان میں بھارتی سوتی وریشمی دھاگے کی درآمدپرصرف 5فیصدڈیوٹی عائدہے۔ جسپرسیکرٹری ٹیکسٹائل امیرمحمدمروت نے کہااگربھارت سے دھاگے کی برآمدپرڈیوٹی بڑھائی جائے توگارمنٹس، ہوزری اورنٹ ویئر کے شعبے بحران میںآ جائیں گے۔

تاہم قائمہ کمیٹی نے سفارش کی کہ بھارت سے دھاگے کی درآمد پرڈیوٹی بڑھائی جائے۔ اپٹماکے عہدیداروں نے کہاکہ بحران کی دوسری بڑی وجہ چین ودیگرممالک سے درآمدکیے جانے والے کپڑے کی انڈرانوائسنگ ہے، چین سے پاکستان بھجوائے جانے والے کپڑے کی مالیت کے چینی اورپاکستانی اعدادوشمارمیں4.43ارب ڈالرکافرق ہے جوانڈرانوائسنگ کا سب سے بڑاثبوت ہے۔

قائمہ کمیٹی کے رکن سلیم مانڈوی والہ نے کہاکہ یہ انتہائی اہم مسئلہ ہے اس کی تحقیقات ہونی چاہیے۔ ایس ایم تنویرنے کہاکہ پاکستان میں انڈرانوائسنگ کے نتیجے میں استعمال شدہ کپڑوں کے نام پرنئے کپڑے آرہے ہیں، عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں پچاس فیصدتک کمی ہوئی جبکہ حکومت نے بجلی کے نرخوں میں کمی کرنے کی بجائے ایک روپیہ اضافہ کردیا۔

بنگلہ دیش میں ٹیکسٹائل انڈسٹری کو7.3سینٹ فی یونٹ ، چین8.5سینٹ فی یونٹ، بھارت میں9سینٹ فی یونٹ کے حساب سے بجلی فراہم کی جاتی جبکہ پاکستان میں ٹیکسٹائل انڈسٹری کو14.2سینٹ فی یونٹ کے حساب سے بجلی فراہم کی جارہی ہے۔ انہوں نے کہااگرہم کیپٹوپاوراسٹیشنوں کی ذریعے اپنی بجلی بنائیں تو9سینٹ فی یونٹ پڑتی ہے لیکن حکومت نے گیس کے نئے کنکشنوں پرپابندی لگارکھی ہے۔

ایف بی آرہمارے100ارب روپے کے ریفنڈکلیم ڈھائی سال سے دباکربیٹھاہے۔ انہوں نے کہاکہ بھارت میں ٹیکسٹائل پالیسی پر115فیصدجبکہ پاکستان میں صرف15فیصدعملدرآمدکیاگیا۔ قائمہ کمیٹی نے اپٹماکے مطالبے پرحکومت کوسفارش کی کہ ٹیکسٹائل انڈسٹری کوبحران سے نکالنے کیلئے غیرملکی منڈیوں میں پاکستانی ٹیکسٹائل مصنوعات کی کھپت پیداکرنے کیلئے خصوصی اقدامات کیے جائیں، بھارت سے سوتی وریشمی دھاگے کی درآمدپرڈیوٹی میں اضافہ کیاجائے، ٹیکسٹائل کے شعبے کی بحالی کیلئے نئی سرمایہ کاری پالیسی لائی جائے، حکومت ٹیکسٹائل کے شعبے کوگیس انفراسٹرکچرڈویلپنٹ سیس کی چھوٹ دے،بجلی کی بلاتعطل فراہمی یقینی بنائی جائے،ٹیکسٹائل کے شعبے کیلئے بجلی کا خصوصی ٹیرف متعارف کرایا جائے، انڈسٹریل گیس کنکشن پرعائدپابندی اٹھائی جائے، نئی سرمایہ کاری سکیم متعارف کرائی جائے، دیگرممالک کے ساتھ وقتاًفوقتاً کیے گئے آزادتجارتی معاہدوں،ترجیحی تجارتی معاہدوں اوردوطرفہ تجارتی معاہدوں پرں طرثانی کے ذریعے غیرملکی منڈیوں میں پاکستانی ٹیکسٹائل مصنوعات کیلئے گنجائش پیداکی جائے جبکہ ایف بی آرٹیکسٹائل انڈسٹری کے ریفنڈکلیم بروقت اداکرے۔

قائمہ کمیٹی کے اجلس کے بعدچیئرمین محسن عزیزنے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہاکہ بلاشبہ ٹیکسٹائل انڈسٹری اس وقت سنجیدہ بحران کی شکار ہے جبکہ بحران سے نکالنے کیلئے ٹیکسٹائل مصنوعات کی پیداواری لاگت بھار ت اوربنگلہ دیش کے مقابلے میں کم کرناہوگی۔ حکومت کوچاہیے کہ اس حوالے سے فوری طورپرسنجیدہ اقدامات کرے۔