سینیٹر محسن عزیز کی زیر صدارت قائمہ کمیٹی برائے ٹیکسٹائل انڈسٹری کا اجلاس، اپٹما کو درپیش مسائل کا تفصیلی جائزہ لیا گیا

ہمارا کردار حکومت، سرمایہ کاروں کے درمیان پل کا ہے، دونوں اطراف کے مسائل سن کر معاملات میں بہتری لانے کیلئے سفارشات مرتب کرینگے، چیئرمین قائمہ کمیٹی پاکستان کو جی ایس ٹی پلس کا درجہ ملنے کے بعد ایکسپورٹ دو گنا بڑھنے کی بجائے کم ہوئی ہے،حکومت کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کے فروغ کیلئے مرتب کی گئی پالیسیوں کو عملی جامہ نہیں پہنایا جاسکا،حکومت سے ٹیکسٹائل انڈسری کو گیس ،بجلی کی فراہمی یقینی بنانے کی سفارش کی جائے،چیئرمین اپٹما کی کمیٹی کو بریفنگ

جمعرات 30 جولائی 2015 21:56

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 30 جولائی۔2015ء) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ٹیکسٹائل انڈسٹری کے اجلاس میں آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن (اپٹما )کو درپیش مسائل کا تفصیلی جائزہ لیا گیا جبکہ چیئرمین قائمہ کمیٹی نے کہا کہ ہمارا کردار حکومت اور سرمایہ کاروں کے درمیاں پل کا ہے، ہم دونوں اطراف کے مسائل سن کر معاملات میں بہتری لانے کیلئے سفارشات مرتب کرینگے،پاکستان کی ترقی و خوشحالی میں ٹیکسٹائل انڈسری کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔

جمعرات کو قائمہ کمیٹی برائے ٹیکسٹائل انڈسٹری کا اجلاس قائمہ کمیٹی کے اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر محسن عزیز کی صدارت میں منعقد ہوا اجلاس میں سینیٹرز غوث محمد خان نیازی ، ثمینہ عابد ، ہری رام اور سلیم ایچ مانڈوی والا کے علاوہ سیکریٹری ٹیکسٹائل انڈسری ، جوائنٹ سیکرٹری پانی و بجلی ، چیف ایکسپورٹس FBR، ڈی جی گیس اور دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی ۔

(جاری ہے)

چیئر مین APTMAنے قائمہ کمیٹی کو بریفنگ کے دوران بتایا کہ ٹیکسٹائل انڈسری کسی بھی ملک کی ترقی میں بنیادی حیثیت رکھتی ہے اور پاکستان کی جی ڈی پی میں اس شعبے کا حصہ 8.5فیصد ہے یہ شعبہ 13.5بلین ڈالر کی ایکسپورٹ کرتا ہے اور ملک کو 38فیصد روزگار بھی فراہم کرتا ہے ۔پاکستان کو جی ایس ٹی پلس کا درجہ ملنے کے بعد ایکسپورٹ کو دو گنا اور بڑھانا تھا مگر وہ پہلے کی نسبت زیادہ زبوں حالی کا شکار ہو چکی ہے ۔

چیئر مین نے کمیٹی کو بتایا کہ پاکستان میں صنعت کی کپیسٹی بند ہونے سے برآمدات کم ہوئی ہیں انہوں نے بتایا کہ اس وقت ملک میں ٹیکسٹائل انڈسری مسلسل زوال کا شکار ہے اور حکومت نے ٹیکسٹائل انڈسری کے فروغ کیلئے جو پالیساں مرتب کی تھیں انکو بھی عملی جامہ پہنایا جا سکا۔2010میں ایکسپورٹ 13.8 بلین ڈالر کی تھی جو 2015میں کم ہو کر 13.5بلین ڈالر تک محدود ہو گئی تیزی سے گرتی برآمدات اور ملکی صنعت کی استعداد کا بند ہونا بیروزگاری کا بڑھنا اور کاٹن سے منسلک ٹیکسائل انڈسری کی سرمایہ کاری میں جمود کا کمیٹی نے سختی سے نوٹس لیا ۔

چیئر مین نے کمیٹی کو بتایا کہ پاکستان میں صنعت کی کپیسٹی بند ہونے سے برآمدات کم ہوئی ہیں انہوں نے بتایا کہ اس وقت ملک میں ٹیکسٹائل انڈسری مسلسل زوال کا شکار ہے آج انڈسٹری اور کاروبار پر آنیوالے اخراجات کے بڑھنے کی وجہ سے نا قابل عمل ہے اس کے سدِ باب کیلئے جو تجاویز APTMA نے دی ہیں اس پر کمیٹی نے مکمل اتفاق کیا ہے کمیٹی نے جو سفارشات مرتب کیں ان میں جی آئی ڈی سی اندسٹری پر نہیں لگنا چاہیے ۔

ٹیکسٹائل انڈسٹری پر بجلی کے استعمال پر سرچارجز کا بوجھ نہیں ڈالنا چاہیے ، ٹیکسٹائل انڈسڑی کا جو اینو ویٹیو ٹیسکس کا نفاز ایکسپورٹ کے اگینسٹ واپس کیا جائے ۔ڈومیسٹک کامرس کے تحفظات کو دور کیا جائے اور سمگلنگ اور ڈمپ ایمپورٹ کو فوری طور پر روکا جائے ۔ ٹیکسٹائل انڈسری میں سرمایہ کاری کو بڑھانے کے لئے LTFSمیں سپننگ اور ویونگ کو بھی شامل کیا جائے ۔

گیس اور بجلی کی صنعتوں کیلئے گیس کنکشن کو ترجیحی بنیادوں پر فراہم کیا جائے ۔اس وقت ملک میں ٹیکسٹائل انڈسریز مسلسل زوال کا شکار ہے اور حکومت نے ٹیکسٹائل انڈسری کے فروغ کے لئے جو پالیسیاں مرتب کی تھیں ان کو بھی عملی جامہ نہیں پہنا یا جا سکا۔ٹیکسٹائل پالیسی جو-14 2009 تک مرتب کی گئی تھی اس کے لئے 188ارب روپے رکھے گئے تھے اس پالیسی پر صرف 15فیصدلگایا گیا ۔

جبکہ اس کے برعکس انڈیاء نے ٹیکسٹائل پالیسی 2007-12کیلئے جو پالیسی مرتب کی تھی اس کے لئے 140ارب روپے رکھے تھے اس پالیسی پر 115فیصد کام کیا گیا انہوں نے اپنی اچھی پالیسیوں اور عمل درآمد کی وجہ سے پالیسی کی بہتری کے لئے پیداوار برآمدات اور ایمپلائمنٹ اور سرمایہ کاری کو بڑھایا ۔جسکی بدولت انڈیا ء کی ایکسپورٹ میں 76فیصد اضافہ ہوا 14ملین سپنڈلز لگائے گئے سولہ ملین افراد کو نوکریاں دی گئیں جبکہ ہماری ٹیکسٹائل پالیسی پر 15فیصد کام ہونے کی وجہ سے 5سالوں میں ہماری ایکسپورٹ گروتھ صفر رہی صرف ایک ملین سپنڈلز لگائے گئے ۔

چیئر مین APTMAنے کمیٹی کو بتایا کہ پاکستان میں 3467ملین ڈالرز کی ایکسپورٹ کی کمی ہوئی ہے صنعتیں کچھ بند ہوچکی ہیں اور سہولیات کی عدم فراہم ، ٹیکسوں کی بھرمار کی وجہ سے باقی صنعتیں بھی بند ہو رہی ہیں۔انہوں نے کہا کہ ملک میں سمگلنگ کی وجہ سے بھی صنعتی شعبہ زوال کا شکار ہے اس کو کنڑول کرنے کے حکومت کو اقدامات کرنے چاہیں ۔انہوں نے کمیٹی سے سفارش کی کہ وہ حکومت سے سفارش کریں کہ ٹیکسٹائل انڈسری کو گیس اور بجلی کی فراہمی کو یقینی بنائے اور بلا تعطل فراہم کرے اور بجلی فی یونٹ 14.25روپے سے کم کر کے 9روپے کی جائے جی آئی ڈی سی کو واپس لیا جائے ، سیلز ٹیکس ایکسپورٹ پر 2فیصد سے بڑھا کر 5فیصد کر دیا گیا تھا اسکو کم کر کے 3فیصد تک لایا جائے ۔

ڈومسٹک صنعت کو فروغ دیا جائے اور کاٹن انڈسٹری پر پانچ فیصد ٹیکس ختم کیا جائے ۔ مارکیٹ اور پیداواری سکیموں پر فوکس کیا جائے،ٹیکسٹائل کے شعبے میں بجلی و گیس کے نئے کنکشنزپر پابندی کو ختم کیا جائے ۔ قائمہ کمیٹی نے APTEMکی طرف سے دی گئی 70فیصد سفارشات کو منظور کیا اور چیئر مین کمیٹی سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ قائمہ کمیٹی کا کردار حکومت اور سرمایہ کاروں کے درمیاں پل کا کردار ادا کرنا ہے ۔

ہم دونوں اطراف کے مسائل سن کر معاملات میں بہتری لانے کیلئے سفارشات مرتب کریں گے ۔پاکستان کی ترقی و خوشحالی میں ٹیکسٹائل انڈسری کو بنیادی حیثیت حاصل ہے اس شعبے کی ترقی سے نہ صرف ملک میں زر مبادلہ کا اضافہ ہوتا ہے بلکہ بے روزگاری کا خاتمہ بھی ہوتا ہے یہ شعبہ اب زوال کا شکار ہو رہا ہے اسکی بہتری کے لئے اقدامات اٹھائے جائینگے۔

متعلقہ عنوان :